Qalamkar Website Header Image

ڈونلڈ ٹرمپ کا پاگل پن کیا رنگ دکھانے کو ہے؟

امریکی صدر اپنی حرکات وسکنات اور بیانات کے باعث ہمیشہ ہلچل مچاتے رہتے ہیں ۔اس حوالے سے وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ جب سے امریکہ کے صدر بنے ہیں عالمی سطح پر اپنا منفرد انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ٹرمپ پہلے صدر ہیں جنہوں نے اپنی پالیسی اور اپنے من کی بات کے اظہار کے لیے ٹویٹ کو استعمال کرنے کی روایت ڈالی ہے۔ ورنہ ان سے قبل تک کے صدور میں ٹویٹ کرنے کی خواہش جنم لینے سے قاصر رہی۔ دنیا کے باقی سب حکمرانوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی ترجیحات اور اپنے ملکی معاملات کے حوالے سے اپنے بیانات دنیا تک پہنچانے کے لیے ٹویٹر کو وسیلہ نہیں بنایا۔ بلکہ اس کے لیے روایتی چینلز کو ہی بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ اور باقاعدہ دفتر خارجہ کے ترجمان میڈیا کے روبرو اپنی پالیسی یا موقف بیان کرتے ہیں۔

امریکی صدر اپنے بیانات کی وجہ سے جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں لیکن ’’رانی کو کون کہے کہ آگے ڈھانپوں‘‘کے مصداق انہیں اس صورتحال سے آگاہ کرنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا۔ صدر ٹرمپ نے نئے سال کے پہلے روز دو ٹویٹ کئے۔ پہلا ٹویٹ پاکستان کے متعلق اور دوسرا یران کے اندرونی معاملات کے بارے میں ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ نے گذشتہ 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر غلطی (صدر ٹرمپ نے تو بےوقوف کے الفاظ استعمال کئے)کی ہے بقول ٹرمپ اس امداد کے عوض پاکستان نے ہمیں دھوکہ دیا۔ ٹرمپ نے مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے نامکمل معلومات فراہم کیں، پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ابتدائی طور پر صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کا جواب دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم دنیا کو جلد بتائیں گے کہ حقیقت اور افسانے میں کیا فرق ہوتا ہے‘‘خواجہ صاحب نے واضح کیا ہے کہ ہم بہت پہلے امریکہ کو بتا چکے ہیں کہ نو ڈومور۔ دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان بھی کھل کر پاکستان کے اس موقف کی حمایت کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اس حقیقت سے نگاہیں چرا رہی ہے کہ اس نے پندرہ سالوں میں کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں جو 33 ارب ڈالر دئیے ہیں( وہ کبھی بھی وقت پر ادا نہیں کی گئی) وہ پاکستان نے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔اس میں پاکستان نے اتحادی افواج کو اپنے فوجی اڈوں سمیت بہت کچھ استعمال کے لیے پیش کیا۔ لیکن امریکی تعصب کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  شام کا نوحہ ، حقیقت کیا ہے؟ - کرن ناز

پاکستان کے میڈیا اور سرکاری حلقوں میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے پس منظر میں ٹرمپ کی اپنی سوچ کار فرما ہے یا اس کے پیچھے ان کے ساتھیوں کی پلاننگ شامل ہے یا ٹرمپ کا بیان پینٹاگون کی باقاعدہ پالیسی کامظہر ہے۔اس سلسلے میں دیکھا جائے تو ہمیں ٹرمپ کے اردگرد جمع مشیروں اور ساتھیوں میں زیادہ تر وہ فوجی جرنلز دکھائی دیتے ہیں جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اور ان فوجی جرنیلوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو باآور کرا رکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی کا باعث پاکستان کا عدم تعاون اور دہشتگردوں کی سرپرستی کرنا ہے۔

ہمارے دانشور اور تجزیہ نگار، وزراء اور سیاستدان امریکہ کی بے وفائی کا رونا رو رہے ہیں۔ بندہ ان سے دریافت کرے کہ کیا امریکی کی بے وفائی کا یہ پہلا موقعہ ہے؟ قیام پاکستان کے بعد سے جب سے ہم امریکی جھولی میں گرے ہیں اس کی جانب سے بے وفائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کشمیر کا مسئلہ ہو، 1965ء کی جنگ ہو یا پھر 1971ء کی جنگ ہو ان مواقع پر امریکہ نے اپنے اتحادی( پاکستان) کو نہ صرف پیٹھ دکھائی ہے بلکہ اس نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ مگر ہم پاکستانی( فوجی و غیر فوجی حکمران) ہمیشہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اس کے چرنوں میں بیٹھتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں صرف بھٹو دور شامل نہیں ہے۔

اگر امریکہ امت مسلمہ کے ساتھ مخلص پن کا مظاہرہ کرتا تو آج مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا۔ فلسطین کا جھگڑا ختم ہوچکا ہوتا۔ مگر امریکی انتظامیہ کے ارادے ہی دنیا میں افراتفری پھیلانا ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد صرف ہم پر دباؤ ڈالنا ہے اور اس بات پر رضامند کرنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارتی کردار کو قبول کر لے ، اس میں سی پیک کو غیر مستحکم کرنا بھی شامل ہے۔امریکی صدر اور ان کے ساتھی اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکات ،غیر متوازن اور تعصب سے لبریز پالیسیوں کے باعث ہی دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ردعمل انتہائی زوردار اور امریکہ کے چودہ طبق روشن کردے گا۔ کیونکہ یہ ردعمل کور کمانڈر کی شیڈولڈ میٹنگ، کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد جاری ہوگا(پاکستان اپنے سرکاری ردعمل کا اظہار ان سطور کی اشاعت تک شاید کرچکا ہو)۔ اس وقت عسکری اور سول قیادت ایک پیج پر ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کو زوردار جواب دیاجائے تاکہ اس کی تمام غلط فہمیاں رفع ہوجائیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پانامہ پارٹ ٹوکا آغاز - غلام رضا

صدر ٹرمپ نے ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی روایت ڈال کر اپنے راستے میں ہی کانٹے بچھائے ہیں ایران کی قیادت ہم سے کہیں زیادہ باشعور،آزاد اور طاقتور ہے۔ ایرانی قیادت قوت ایمانی اور غیرت ملی کے نشہ میں مخمور ہے اس سے پنگا لینا امریکہ کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے مشرق وسطی میں لگی آگ کو بڑھاوا دیا ہے ۔ منصب صدارت پر فائز ہونے سے لے کر اب تک ٹرمپ نے امریکی عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے اقدامات کئے ہیں۔ پاکستان کی قیادت کو امریکہ سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں شمالی کوریا اور ایران اور وینزویلا سمیت متعدد ممالک کی مثالیں کافی ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس