Qalamkar Website Header Image

عطائیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حکومتی دعوے – انور عباس انور

عطائیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے تمام حکومتی دعوے ٹھس ہوگئے، موجود حکومت کے گذشتہ ساڑھے آٹھ سالوں میں کئی بار مہمات کا آغاز کیا گیا لیکن محض چند روز میڈیا میں شور برپا ہونے کے بعد حالات پھر وہیں پرانی ڈگر پر چلے گئے، عوام پھر ان عطائیوں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہوتے ہیں اب تک جتنی بھی مہمیں چلائیں گئیں خواہ ان کا تعلق ناجائز تجاوزات سے ہو ،جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والے درندہ صفت بھیڑیوں سے چھٹکارہ دلانے سے ہو سب کی سب تمام دعووں کے باوجود ”چند دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ” ثابت ہوئیں۔
پنجاب حکومت جسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ پاور فل حکومت سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ تسلیم بھی کیا جاتا ہے،جس کے سربراہ خادم اعلیٰ کا دعوی ہے کہ وہ عوام کو سکھ چین مہیا کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے، کے دور میں جعلی ادویات کا کاروبار خوب چمکا، عطائیت نے بھی خوب پرورش پائی، پنجاب بھر کے تمام چھوٹے بڑئے شہروں ،قصبوں کے گلی محلوں اور بازاروں میں جگہ جگہ عطائی اپنی دوکانیں لگائے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں دانتوں کی صفائی کروانے اور انہیں نکلوانے سے لیکر ہر قسم کی بیماریوں کے شافی علاج کے دعوے کے ساتھ فٹ پاتھوں پر ”ڈاکٹرز اور معالج خاص” ہر وقت خدمت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
اب عطائیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ آلو چھولے بیچنے والوں نے بھی لیکوریا ، بواسیر ،گیس اور خارش جیسی مرض کا شرطیہ علاج کرنا شروع کردیا ہے ،حد تو یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کی ناک کے نیچے لاہور شہر کے معروف لاہوری دروازے کے باہر ایک بارہ مصالحے والے چنے بیچنے والے نے بھی عوام کو لوٹنے کا دھندہ شروع کر دیا ہے، اسی طرح بھاٹی چوک میں داتا دربار کے با لمقابل سرعام عطائی ڈینٹسٹ لوگوں کے دانت نکالنے میں مصروف ہوتے ہیں، اور اسی مقام پر کئی عطائی ڈاکٹر کانوں جیسے حساس اعضا ء کا علاج بھی کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں، لیکن سب عطائی ڈاکٹر بلا خوف و خطر اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بیوروکریسی کا کمال یہی ہے کہ ہر حکومت چاہے اس کا منشور کچھ بھی ہو ،چاہے اس نے عوام کی تقدیر بدلنے کے کتنی ہی وعدے کیے ہوں یہ طاقتور سے طاقتور سیاسی حکمران کو بھول بھلیوں میں الجھا دیتے ہیں اور کرتے وہیں کچھ ہیں جو ان کی اپنی مرضی میں آئے اور جب کبھی حکمران رپورٹ مانگے تو یہ ”سب اچھا ہے” کی رپورٹ دےکر انہیں مطمئن کر کے آرام سے بٹھا دیتے ہیں۔اور بیوروکریسی کی ریشمی ریشمی زلفوں کے اسیر حکمران پرانے تنخواہ پر ہی کام کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں، حکومت کو اس مکروہ دھندے کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ عطائی عوام کی زندگیوں سے یوں کھیلتے رہیں گے، اس حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ عطائی نہ صرف لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں بلکہ معاشرے میں کینسر جیسی موذی مرض کے پھیلنے کا بھی موجب بن رہے ہیں۔
گذشتہ دونوں الیکٹرانک میڈیا پر چونکا دینے والی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملیں جنہوں نے مجھ جیسے بہت سوں کو اندر سے ہلا کے رکھ دیا ہوگا، لاہور کے  جناح ہسپتال میں قصور اور سیالکوٹ سے آنے والے مریض محض بیڈ نہ ملنے سے اس سردی کے عالم میں ٹھنڈے ٹھار فرش پر ایریاں رگڑ رگڑ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ایسا ہی فیصل آباد میں بھی واقعہ پیش آیا، شہباز شریف کو ان واقعات کی انکوائری کروانی چاہیے اور قصور وار وں کو کڑی سے کڑی سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو بھی انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی ہمت اور جرآت نہ ہوسکے۔ 
میری لیے حیرانی اور پریشانی کا باعث یہ بات ہے کہ میاں محمد شہباز شریف جیسے مضبوط وزیر اعلیٰ نے عطائیت کے مقابل کیسے شکست تسلیم کرلی؟ان کی اب تک کی کارکردگی تو یہی دکھائی جاتی ہے کہ وہ کسی انسان دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے والے سیاستدان نہیں ہیں، اور ناہی انہیں اقتدار ہر صورت اور ہر قیمت پر عزیز ہے ان کے لیے اقتدار سے زیادہ پنجاب کے عوام کی بھلائی ،خدمت اور ان کی زندگیاں عزیز ہوتی ہیں، ان سطور میں اس امید کا اظہار کیا جاتا ہے کہ خادم اعلیٰ اپنی پہلی فرصت میں ان انسانی جانوں کے دشمن عطائیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے، اور ایسا انتظام بھی کیا جائے گا کہ یہ عوام دشمن لوگ دوبارہ اپنے مکروہ دھندے کو شروع نہیں کرسکیں گے۔ 

حالیہ بلاگ پوسٹس