احتساب عدالت سے سزا ہونے کے بعد عام خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف اور ان کی دختر اب وطن واپس نہیں آئیں گے۔ ایسا خیال اس لیے کیا جا رہا تھا کہ میاں صاحب ماضی میں جیل سے سیدھا جدہ تشریف لے گئے تھے۔جدہ روانگی باقاعدہ تحریری معاہدے کے بعد عمل میں آئی اور اس تحریری معاہدے میں چند غیر ملکی شخصیات ضامن بھی بنے۔ اس وقت ملک سے باہر جانے کے فیصلے میں دیگر وجوہات میں شاید یہ ایک وجہ بھی تھی کہ ملک پر فوجی آمریت مسلط تھی۔ اور قید سخت تھی۔اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں تو میاں صاحب کو بھی پاکستان واپس آنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس وقت تک جنرل مشرف کی چولیں ہل چکی تھی۔حالات پر اس کی گرفت 12 اکتوبر1999 والی نہیں رہ گئی تھی۔ فوجی ڈانڈا کافی کمزور پڑ چکا تھا ۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس پر جمہوریت بحالی کرنے اور وردی اتارنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ امریکا ان کی حمایت وردی اتارنے سے مشروط کر رہا تھا۔ سو بے نظیر بھٹو صاحبہ شہید کے بعد میاں صاحب بھی پاکستان پر اترے۔ دوسرا انہیں افتخار محمد چوہدری جیسے چیف جسٹس کی سپورٹ بھی میسر آئی۔جس نے طیارہ سازش کیس میں دی گئی سزا کو بیک جنبش قلم اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
اب ملک میں جمہوریت کا تسلسل جاری ہے۔ جو آصف علی زرداری کے فہم و تدبر کے باعث ممکن ہوا۔ میاں نواز شریف کی جانب سے بہت جتن ہوئے کہ آصف زرداری حکومت کو مدت پوری نہ کرنے دی جائے۔ لیکن زرداری صاحب ایوان صدر میں تکیہ کے نیچے پستول رکھ سونے کی خبروں کے باوجود اپنی آئینی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میاں صاحب میموگیٹ سکینڈل میں فوج کے شانہ بشانہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے لیکن زرداری بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔
اب میاں صاحب سزا سنائے جانے کے وقت لندن میں موجود تھے۔ اور ان کے پاس اہلیہ کی بیماری کا معقول جواز بھی ہے۔اگر وہ پاکستان واپس آنے کا فیصلہ نہ کرتے تو کچھ مضائقہ نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے وطن واپس آنے کا اعلان کرکے ایک سیاسی کھڑاک کردیا۔ مخالفین جو ان کے لندن میں سیاسی پناہ لینے کے دعوے کرچکے تھے ۔اس کے باوجود انہوں نے اعلان کیا کہ وہ 13جولائی کو لاہور پہنچیں گے۔ اب ان کے مخالفین بہت پریشان ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ میاں صاحب بزدل ہیں جیل کی گرمی برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ان میم ہمت ہے، نازک مزاج ہیں، شہری بابو ہیں۔
میاں شہباز شریف کی جانب سے سزا کے خلاف ظاہر کیا جانے والا ردعمل انتہائی نامناسب تھا اس ٹھنڈے ردعمل نے میاں صاحب کو وطن واپسی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ نوازشریف اور ان کی پوری فیملی کو سیاست سے باہر کرنے والوں کے مقاصد میں کچھ میاں شہباز شریف اور ان کے فرزند حمزہ شہباز کے لیے راستہ صاف کرنا ہے،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے سیاسی میدان میں موجود رہنے سے میاں شہباز شریف کے لیے قومی سیاست میں کردار ادا کرنا ناممکن تھا۔جنرل پرویز مشرف متعدد بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’ انہوں نے 1999میں شہباز شریف سے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کی جگہ آگے آئیں،آپ فوج کے لیے قابل قبول ہیں‘‘ یہ بھی انہوں نے ایک انٹرویو میں شہباز شریف کی تعریف کی ہے۔ اس طرح عدلیہ بھی شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔جس کا اظہار چیف جسٹس بھی کر چکے ہیں۔ حمزہ شہباز شریف اور عائشہ احد میں صلح کروانا بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھی جا رہی ہے۔
اپنے گھر سے ہی اپنی راہ میں سپیڈ بریکر کھڑے کرنے کے دل خراش واقعات نے میاں نواز شریف کے سامنے دو آپشن رکھے۔ ایک یہ کہ اگر انہوں نے سیاست میں زندہ رہنا ہے اور سیاست کرنی ہے تو پھر مشکلات کو برداشت کرنا ہوگا۔جیل جانا ہوگا۔ جیل کی سختیاں برداشت کرنا ہوں گی۔ اور اگر انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہے اور تاریخ میں ایک بزدل راہنما کی حثیت سے نام کمانا ہے تو پھر لندن میں اپنا قیام بڑھا دیں اور وطن واپسی سے انکار کر دیں۔ ان کے وطن واپسی سے انکار سے ان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتی ۔ جو میاں نواز شریف کو کسی صورت قبول نہ تھی ۔انہوں نے اپنے مخلص ساتھیوں کے مشورہ پر میاں نواز شریف نے سیاست سے کنارہ نہ ہونے ،شہباز شریف کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑنے اور تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے وطن واپس آنے کا اعلان کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک میاں صاحب پاکستان میں لینڈ کرچکے ہوں۔ میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کرکے مریم نواز کی سیاست کو دوام بخشا ہے۔ کیونکہ اب سیاست مریم نواز اور کلثوم نواز نے ہی کرنی ہے۔ ان کے بیٹے اب پاکستان کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ نااہل ہونے ،سزا یافتہ ہونے کے باوجود پاکستانی سیاست پر کئی دہائیوں تک نواز شریف فیکٹر کے چھائے رہنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔اس حوالے سے مثال ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر راہنماؤں کی دی جاتی ہیں۔ اس امر کا فیصلہ انے والے وقت اورحالات میں ہوگا کہ میاں نواز شریف فیکٹر پاکستانی سیاست میں کتنا موثر ثابت ہوتا ہے۔
مین نے شاید مارچ میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی کہ’’آج جو لوگ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور انہیں سپورٹ کر رہے ایک دن انہیں پچھتانا پڑے گا‘‘ آصف علی زرداری اور ان کی بہن کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات،حسین لوائی کی گرفتاری نے میرے خیال کو سچ ثابت کیا ہے۔ میں نے کسی کالم میں لکھا بھی تھا کہ قوتوں نے نواز شریف کو ’’قابو‘‘ کرنے کے لیے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو استعمال کیا ہے جب نواز شریف سے نبٹ لیں گے تو پھر ’’ آصف ‘‘ پر وار کیا جائے گا۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn