ذوالفقارعلی بھٹو کے ناقدین بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عالمی سطح کا لیڈر تھا۔یہ بھٹو کامقدرہے کہ مخالفین اعتراف کررہے ہیں کہ اس نے پاکستان کی قیادت کی باگ ڈور انتہائی نامساعد حالات میں سنبھالی اور زخموں سے چور چور قوم اور مملکت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔دنیا میں سراٹھاکر چلنے کی ہمت عطاکی۔ قوموں کی انجمن میں وہ مقام و مرتبہ دلوایا جو چند ناعاقبت اندیش ٹولے کی بناپر چھن گیا تھا۔ بعض جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار ذوالفقا ر علی بھٹو تھا اور اس حوالے سے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اس نے اقتدار شیخ مجیب کو نہیں دیا اور کہا تھا کہ’’ ادھر تم ادھر ہم‘‘ ۔بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ وہ اس جلسہ میں موجود تھے جس میں بھٹو نے یہ الفاظ کہے تھے۔ میں ایسے احباب کو اس بات پر چیلنج کرتا ہوں جو کوئی بھٹو کی اس تقریر میں سے یہ جملہ دکھا دے کہ ’’ ادھر تم ادھر ہم ‘‘میں غلطی پر ہونے کو تسلیم کرلوں گا۔باقی یہ کہ جس طرح آج عمران خاں اور شیخ رشید افواج پاکستان کے ہراقدام کی تعریف و تائید کررہے ہیں 70 اور 71 میں بھٹو بھی افواج پاکستان کی پشت پر کھڑا تھا۔
بھٹو پاکستان کاصدر اور نہ ہی وزیراعظم تھا۔ سب کرتا دھرتا یحییٰ خان اور اس کے ساتھی جنرل تھے۔ الیکشن یحییٰ خان نے کروائے تھے او شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار منتقل کرنا بھی اسی کی ذمہ داری تھی جو کہ پوری نہیں کی گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عوامی اقتدار پر قابض ہر آمر جنرل کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش جنرل یحییٰ خان کے اندر بھی مچل اٹھی تھی اس نے منصوبہ بندی ایسی کہ مجیب سے ساز باز کرکے صدر مملکت منتخب ہوجائےگا۔ لیکن مجیب الرحمان نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیاتھا۔ پھر اقتدار پر قابض حکام نے اسے طاقت کے نشہ میں بزور قوت سدھارنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک بہت تاخیرہوچکی تھی۔ شیخ مجیب الرحمان ’’ بنگلہ بدھو‘‘ بن چکا تھا ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی بھٹو سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار تھا تو بھٹو کو تو پھانسی چڑھا دیا گیا لیکن سقوط مشرقی پاکستان کے باقی کردار چاہے وہ سیاسی تھے یا فوجی۔۔۔ انہیں کیوں کھلا چھوڑا گیا؟ اور اگر جنرل ضیا ء الحق کو اتنا ہی یقین تھا کہ بھٹو پاکستان کا قاتل ہے تو اس نے بھٹو پر پاکستان کے قتل کا مقدمہ کیوں نہ چلایا اور غداری کے الزام میں پھانسی کیوں نہ دی۔۔۔یحییٰ خان کو دماد پاکستان بنا کر کیوں رکھا گیا؟
مان لیتے ہیں کہ جسٹس حمودالرحمان کمیشن میں بھٹو کو مجرم قرار دیا تھا اور اسی لیے بھٹو نے اس رپورٹ کو عام کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی۔۔۔ لیکن بعد میں جنرل ضیاء الحق نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کی ہمت کیوں نہ کی؟ جنرل پرویز مشرف نے یہ فریضہ سرانجام کیوں نہ دیا؟
باتوں باتوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا،آج پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس دن ایک فوجی آمر نے پاکستان کے مستقبل کو پھانسی پر لٹکایا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ پہاڑ روئے گا۔ اقوام عالم نے دیکھا کہ آج تک پوری دنیا رورہی ہے۔ پاکستان کا چپہ چپہ اور ہر شہری دہشتگردی کی جنگ سے متاثر ہے اور رو رہا ہے۔ موجودہ حالات اس پالیسی کا نتیجہ ہیں جو پیپلز پارٹی اور بھٹو سے ( بھٹو کے خوف سے) نجات حاصل کرنے کیلیے اختیار کی گئی۔ قوم کو مذہبی، لسانی اور برادری ازم کی سیاست میں جھونک دیا گیا۔
آج مسلم لیگ نواز اور جماعت اسلامی سمیت سب وہ جماعتیں جو جنرل ضیاء الحق کی ہم زبان تھیں۔جنہوں نے ضیاء کے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کے وعدے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے، اور نعرہ لگایا ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ جیسے آج جوڈیشل مارشل لاء لگانے اور کڑے احتساب کی باتیں کی جا رہی ہیں بالکل ایسے ہی جنرل ضیا ء کو انتخابات سے قبل بے رحمانہ احتساب کی پٹی پڑھائی گئی گو اس میں جنرل ضیا کی اپنی خواہش اور آرزو شامل تھی۔ انتخابات ملتوی کیا ہوئے اس کڑے اور بے رحمانہ احتساب کے مطالبے نے ملک اور قوم کی ترقی کے پہیے کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔
آج سب بھٹو کی جان کے دشمن اور بھٹو خاندان کو پاکستان کے لیے ناسور قرار دینے کے فتوے جاری کرنے والے۔۔۔بھٹوکو غیر مسلم قرار اور ثابت کرنے والے سیاستدان اور فدویانہ اور زرد صحافت کے بانی صحافی اور دانشور ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کہتے نہیں تھکتے۔ کہتے ہیں کہ اس پاکستان میں کسی وزیر اعظم کو بھی مدت اقتدار پوری نہیں کرنی دی گئی۔کسی کو پھانسی دے کر اور کسی کو سندھڑی بھیج کر اور کسی کو جلاوطن کرکے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔اور کسی کو چٹے دن راول پنڈی میں قتل کیا گیا۔
’’نوجوان نسل کو تعصب کی عینک اتار کر بھٹو کی کتاب’’اگر مجھے قتل کردیا گیاتو‘‘ پڑھانی چاہیے خصوصا سیاسیات کے طالب علموں کو تو اس کا مطالعہ ضرور کروانا چاہیے۔ جن دنوں بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ کے مقدس نام پر ملک میں غدر اور لوٹ مار مچا رکھی تھی ان دنوں بھٹو اچانک راجہ بازار پہنچ گئے عوام نے فقیدالمثال استقبال کیا وہاں عوام سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ’امریکہ اب مذاکرات کرنے کی پیش کش کر رہا ہے ‘بھٹو نے ایک خط فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ ’’یہ خط امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا ہے ‘‘ بھٹو نے امریکیوں کو للکارا اور جھکنے سے انکار کردیا۔لیکن یہاں عوام نے دیکھا کہ میاں نواز شریف کو بچانے خود بل کلنٹن چند گھنٹوں کے لیے پاکستان پہنچا اور نواز شریف کو جدہ پہنچانے کی راہ ہموار کرگیا۔
بھٹو کے عدالتی قتل میں سارا انحصار فیڈرل سکیورٹی فورس کے سابق چیف مسعود محمود کی سلطانی گواہی پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب نے اسمبلی میں احمد رضا قصوری کو راہ راست پر لانے کی بات کی تھی لیکن یہ ضروری نہیں کہ بھٹو صاحب نے انہیں قتل کرنے کا حکم صادر کیا ہو، اس کہانی میں یہ بھی ممکن ہے کہ مسعود محمود نے نواب محمد احمد قصوری سے کوئی اپنا حساب کتاب چکتا کیا ہو۔ اس بات کے شواہد اور تانے بانے بھی ملتے ہیں۔کیونکہ مسعود محمود اور احمد رضا قصوری دونوں قصور کے رہنے والے تھے۔
اسی کیس میں سابق فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر میاں عباس بھی ملزمان کی فہرست میں تھاے۔ میاں عباس معروف ادیب ،صحافی اور دانشور حمید اختر کے قریبی رشتہ دار تھے اور نازنگینہ سینما کے مالک میاں گلریزآفتاب ایڈووکیٹ کے سسرالی رشتہ دار تھے اور ہماری میاں گلریز آفتاب کے ساتھ نشستیں ہوا کرتی تھیں میاں گلریز بتایا کرتے تھے کہ میاں عباس کو بھی سلطانی گواہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا لیکن انہوں نے ہر بار انکار کیا ۔میاں عباس کو یقین دہانی کرواتے تھے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا جیسے باقی تین چار ملزمان کو یقین دہانی کروائی گئی اور یہ یقین دہانی جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے کروائی ۔ مگر میاں طفیل محمد اپنی اس یقین دہانی پر عمل نہ کروا سکے۔
اس حوالے سے میاں طفیل محمد نے جنرل ضیا الحق کو متعدد بار یاد دلایا مگر جنرل ضیا نے کہا میاں صاحب ایسا ممکن نہیں کیونکہ سارا کیس خراب ہوجائے گا
جنرل ضیاء میاں طفیل کو ماموں کہا کرتا تھا۔
عرب دنیا (ماسوائے سعودی عرب) اور ترکی ذوالفقار علی بھٹو کی جان بخشی کی اپیلیں کرتی رہی اور یہ پیشکش بھی کہ بھٹو ہمیں دیدیا جائے لیکن بھٹو نے ملک چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں مرنے کو ترجیح دی۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے محض ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی میں بھارت جیسے ازلی دشمن کے وزیر اعظم کو پاکستان کااعلی ترین اعزاز عطا کیا۔ جب کہ بھارت کی جانب دوستی کے ہاتھ بڑھانے والے سیاستدانوں کو سکیورٹی رسک اور پاکستان دشمن قرار دیا جاتا رہا ہے اور اب بھی اس روش پر عمل جاری ہے۔
ہندستان کے جس وزیر اعظم کو اعلی پاکستانی اعزاز سے نوازا گیا اس کا نام مرار جی ڈیسائی تھا۔یہ 1977سے 1979 یعنی بھٹو کا تختہ التنے سے اس کی پھانسی تک بھارت میں برسراقتدار رہا۔ اس بھارتی وزیر اعظم کی بھٹو دشمنی کے علاوہ بھی ایک اور خوبی تھی ،وہ یہ کہ مرار جی ڈیسائی اپنا پیشاب پیتا تھا اور اس کا برملا اعتراف اس نے خود اپنی کتاب میں بھی کیا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ جنرل ضیا الحق جیسے دیندار شخص کی جانب سے اسے پاکستان کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا۔ جنرل ضیا ء نے اسکو اعلیٰ اعزاز اس لیے عطا کیا کہ اس نے بھٹو کی جان بخشی کی اپیل کرنے سے انکار کیا تھا اور بھٹو کی پھانسی کو پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیکر اس میں مداخلت کرنے سے انکار کیا تھا۔خود بھارت میں اس پر بحث ہوتی رہی ہے بلکہ ابھی بھی ہورہی ہے کہ پاکستان نے اپنا سب سے بڑا سول اعزاز مرارجی ڈیسائی کو کن خدمات کے عوض عطا کیا تھا؟
جنرل ضیا نے اپنے ذاتی اقتدار اور امریکہ کے مفادات کی تکمیل کے لیے بھٹو کو راستے سے ہٹایا اور پاکستان کو مسائل کی دلدل میں دھکیل گیا۔بھٹو آج بھی امر ہے اور اس کی قبر ہر سال بلکہ پورا سال لوگوں کی توجہ کا مرکز و محور بنی رہتی ہے جبکہ ضیاء کی قبر ویران ہے۔ جو لوگ بھٹو کی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے پر تنقید کرتے ہیں انہیں اب نجی تعلیمی اداروں کے حالات اور عوام کاان کے ہاتھوں لٹنے کی داستان دیکھ کر احساس ہوگیا ہوگا کہ بھٹو کی تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کیوں ضروری تھی؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn