Qalamkar Website Header Image

چوہدری نثار علی خاں کے روپ میں بے نظیر بھٹو کے انکلز

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ کیا چوہدری نثار علی خان کی صورت میں بے نظیر بھٹو کے مرحوم انکلز زندہ ہوگئے ہیں؟ مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ غلام مصطفی جتوئی، ملک غلام مصطفی کھر، میاں احسان الحق اور محمد افضل سندھو ہندو عقیدے کے مطابق دوبارہ جنم لے کر پاکستان کی سیاست میں وارد ہوئے ہیں۔ اس جنم میں ان سب کا ایک ہی نام چوہدری نثار علی خان ہے۔

بے نظیر بھٹو کے انکلز نے بھی یہی موقف اپنایا تھا کہ وہ کل کی بچی کی قیادت میں کام نہیں کر سکتے۔ اور چوہدری نثار علی خان بھی یہی واویلا کر رہا ہے کہ میں کل کی بچی کی کمان میں کام نہیں کر سکتا اور مریم نواز کو’’ میم ‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے چوہدری نثار علی کا موقف بالکل بے جان دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ چوہدری نثار علی خود کو پکا مسلمان قرار دیتا ہی نہیں بلکہ اس پر اسے فخر و ناز بھی ہے۔

کیا تاریخ اسلام ہمیں یہ سبق نہیں پڑھاتی کہ کئی اسلامی معرکوں میں سپاہ اسلام کا سپہ سالار یا امیر لشکر جونیئر ترین نوجوانوں کو بنا کر بھیجا گیا؟ کیا نوجوان سپہ سالار کی امارت اور سالاری میں سنیئر ترین اور فن حرب کے ماہرین نے لشکر اسلام میں شریک ہو کر خدمات سرانجام نہیں دیں ؟ لیکن سنیئر سپاہیوں نے یہ کہہ کر سپہ اسلام کا حصہ بننے سے انکار نہیں کیا کہ وہ اپنے سے جونیئر نوجوان کی کمان میں جنگ نہیں لڑ سکتے؟
خیبر میں حق و باطل کے معرکہ میں حضرت ابوبکرْ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سمیت کئی بہادر جنگجوؤں دوسرے صحابہ کی موجودگی میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جونیئر ترین حضرت علی ابن ابی طالب کو علم دے کر روانہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ چوہدری نثار کا موقف ہٹ دھرمی اور بغاوت پر مبنی ہے۔

چوہدری نثار علی خان شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ ان کا لیڈر نواز شریف ہے جو اپنے گستاخ ساتھیوں کو معاف کرنے کی روایت نہیں رکھتا جبکہ غلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر، ملک معراج خالد، احسان الحق اور محمد افضل سندھو کی لیڈر بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے بغاوت کی ناکامی پر انہیں نہ صرف معاف کر دیا تھا بلکہ ان سب کو عام انتخابات میں ٹکٹ بھی دیے اور اپنی کابینہ میں بھی شامل کیا۔ ماسوائے غلام مصطفی جتوئی کے کہ انہوں نے معافی نہیں مانگی تھی اور نہ ہی اپنے کئے پر اظہار ندامت و شرمندگی کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:  سیاسی قتل اور مکافات عمل

چوہدری نثار اکیلے پرواز کہاں تک کر سکتے ہیں اس کا تعین آئندہ انتخابات میں ہو جائے گا۔ کہتے ہیں کہ چوہدری نثار اکیلا نہیں ہے اسے در پردہ شہباز شریف سمیت کئی دیگر مسلم لیگیوں کی حمایت حاصل ہے لیکن اس حمایت کا کیا کرنا جو سامنے آنے سے کنی کتراتی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف نواز شریف کو براہ راست چیلنج کرنے کی ہمت و جرآت کبھی نہیں کرے گا۔ پھر نثار علی خان کس غلط فہمی میں مبتلا ہے؟ کیا چوہدری نثار اکیلے ایک بڑے دھڑے کو الیکشن میں کامیاب کروانے کی پوزیشن میں ہے جو نواز شریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے؟ مجھے ایسی انہونی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر چوہدری نثار راولپنڈی سے کسی غیبی امداد کی امید پر اپنی کشتیاں جلا رہے ہیں تو اس کی مثال امریکی بحری بیڑے سے مختلف نہیں ہوگی مطلب نہ بیڑا آیا اور نہ مشرقی پاکستان الگ ہونے سے بچ پایا۔ انکار ممکن نہیں لیکن کبھی کبھی یہ بھی بے بس ہو جاتے ہیں اور قدرت اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔جیسے بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے راولپنڈی والوں نے کیا کیا جتن نہیں کیے اور کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے لیکن قدرت نے جنرل حمید گل کی منصوبہ بندی کو ناکام بنایا اور اقتدار کے سنگھاسن پر بےنظیر بھٹو کو بٹھایا اور ثابت کیا کہ اس کے معاملات اپنے ہوتے ہیں اور وہ ہی بہتر جانتی ہے۔

چوہدری اور ان کا خاندانی پس منظر ظاہر کرتا ہے کہ وہ اور راولپنڈی والے باہم شیر و شکر ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں آتے۔دونوں ہی ایک دوسرے کی مدد و نصرت کرنے پر مجبور ہیں اس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ چوہدری نثار کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جاندیدہ اور دور اندیش ہے لیکن جیسے بے نظیر بھٹو کے انکلز اس کے راستے کی دیوار بننے میں ناکامی سے دوچار ہوئے ایسے ہی مریم صفدر کے انکلز کے مقدر میں شکست لکھی گئی ہے۔ سامنے دیوار پر صاف اور واضح لکھی ہوئی تحریر کو اگر کوئی جان بوجھ کر نہیں پڑھنا چاہتا تو الگ بات ہے۔ چوہدری نثار تو ابھی بظاہر اکیلے ہیں مگر بے نظیر کے مدمقابل ملک غلام مصطفی کھر، ایشیا کا سب سے بڑا جاگیردار غلام مصطفی جتوئی، کوثر نیازی، ملک معراج خالد، میاں احسان الحق، افضل سندھو سمیت متعدد لوگ تھے لیکن عوام کا عشق بھٹو خاندان سے تھا اس لیے انہوں نے انکلز کے پیچھے سازشیوں کی سازش کو پہچان لیا اور اسے ناکام بنایا۔ اس وقت بھی عوامی لگاؤ نواز شریف اور اس کی دختر سے ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ راولپنڈی والوں کی لکھی کہانی اور ان کی ڈائریکشن میں بنائی جانے والی فلم پاکستانی عوام کو متاثر کر پائے گی اور ان کی توجہ حاصل کر کے کوئی بزنس کر لے گی۔ ماضی میں بھی اس ٹائپ کی فلمیں بنیں اور ڈبوں میں بند ان کا مقدر بنا۔

یہ بھی پڑھئے:  عدلیہ کی توقیر و اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات | انور عباس انور

اس قسم کی ڈبہ(یاد رہے فلم انڈسٹری میں ناکام فلموں کے لیے ڈبہ فلم کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے) فلمیں بنانے والے بار بار ناکامی اور سرمایہ کے ضیاع کے باوجود دل برداشتہ نہیں ہوتے اور پوری لگن سے اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی ان کی بنائی فلم تین تین ماہ کے لیے زبردستی عوام کو برداشت کروائی جاتی ہے۔ خیر بات دور نکل گئی۔ جس طرح ناکام فلمیں بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کو عوام کے دلوں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اسی طرح نواز شریف کو بھی نکالنے میں انہیں مشکل پیش آئے گی کیونکہ نادیدہ قوتوں اور ناکام فلمیں بنانے والوں اور عوام اور پاکستان کی خوشحال میں رخنے ڈالنے والوں سے لڑنے کام اب بھٹو کی جگہ نواز شریف نے لے لی ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس