آہ کیا لکھوں کیا کہوں ایک اور معصوم کلی زینب مسل دی گئی۔ درندوں نے اس سے جینے کا حق چھین لیا۔ گھر سے وہ دینی تعلیم کے لیے باہر نکلی تھی۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے قریبی شہر قصور ہاں وہی قصور جو بلھے شاہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ ہاں وہی قصور جہاں کے ایک نواب کے قتل کے الزام میں فخر ایشیا کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ سات سالہ معصوم زینب جس کے والدین اللہ کے حضور پیش تھے۔ عمرہ کے لیے مکہ اور مدینہ میں سربسجود تھے۔اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر وطن عزیز کے لیے دہشتگر درندوں سے نجات کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ اور اس مملکت خداداد میں بسنے والے عوام کی زندگیوں کو سکھ چین سے بھر دینے کی التجائیں کررہے تھے۔ ان بدقسمت والدین کو کیا خبر تھی کہ جس وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کی وہ دعائیں مانگ رہے ہیں اور جس عوام کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھرنے کی وہ اپنے پروردگار سے دعائیں کر رہے ہیں۔ اسی وطن میں بسنے والے درندوں نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کو اغواء کرلیا ہے۔ اور اس کے ننھے جسم کو بھیڑیے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔
سرزمین یثرب پر بھیگی آنکھوں سے جب ان کو اپنی ننھی پری زینب کے اغواء ہونے کی اطلاع ملی ہوگی تو ان پر کیا بیتی ہوگی؟
یہ معصوم زینب کے ساتھ درندگی و زیادتی کا پہلا واقعہ نہیں، گزشتہ ایک سال سے اب تک ایک درجن سے معصوم بچیوں کو اغوا کیا جاتا رہا اور انہیں درندے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے اور پھر ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو موت کے گھاٹ اتار کر یوں گندگی کے ڈھیروں پر پھینکتے رہے۔ ان پھولوں اور کلیوں کے مالی حکمرانوں اور ان کے منظور نظر افسران کے سامنے سراپا احتجاج بنتے رہے انصاف کی دہائیاں دیتے رہے۔ درندوں اور بھیڑیوں کو گرفتار کرنے کی التجائیں کرتے رہے مگر
خود کو عوام کا خادم اعلیٰ کہنے والے وزیراعلیٰ جو تاثر دیتے ہیں کہ وہ کامریڈ ہیں۔ جو انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں۔ ظالموں کو شہر لاہور کے بھاٹی چوک میں سرعام پھانسی لٹکانے کے دعوے اور وعدے کرتے ہیں۔ جو یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سوئیں گے جب تک ظالموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا لیں گے۔ لیکن پنجاب کے خادم اعلی جو بات بات پر از خود نوٹس لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکے ہیں، قصور میں ایک سال سے سراپا احتجاج عوام کی پکار پر خادم اعلی نے از خود نوٹس لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟ قصور سے منتخب عوامی نمائندوں کے کانوں پر جوں کیوں نہ رینگی؟ قصور کی سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے والے کیا انسان نہیں تھے؟ کیا اغواء ہونے والی بچیاں حکمرانوں کی بچیاں نہیں تھیں؟
معصوم زینب کی نعش ہفتہ بعد کوڑے کے ڈھیر پر سے ملی ۔ ان ایام میں خادم اعلی کو نیند کیسے آ گئی؟ چند ماہ پیشتر ہی اسی قصور میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور ان کی ویڈیوز بناکر فروخت کرنے کا کیس بھی منظر عام پر آچکا تھا اس میں ملوث ملزمان کو کیوں کر عبرتناک سزائیں نہ دلوائی گئیں؟ اگر ایسا ہوجاتا ۔اور پہلی بچی کے اغواء کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا تو آج معصوم زینب درندوں ،بھیڑیوں کے ہاتھوں مسلے جانے سے محفوظ رہ جاتی۔ خادم اعلی نے گزشتہ روز ہی علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دین اسلام اور صاحب شریعت نبی مکرم کی پیروی کرنے اور ان کا سچا غلام ہونے کے بلند وبالا دعوے کیے تھے۔
کیا خادم اعلی صاحب حضرت محمد ﷺ کے صحابی حضرت عمر ابن خطاب کے یہ الفاظ بھول گئے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو روز محشر اللہ سبحانہ تعالی کے ہاں پکڑ ہوگی۔ کیا ان کی بادشاہت میں معصوم پھول کلیوں کا درندوں اور بھیڑیوں کے ہاتھوں مسلے جانے، انہیں ظلم و زیادتی کا شکار بنانے، ان معصوموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو پکڑنے سے چشم پوشی کرنے، اپنے عوام کے حقوق سے غفلت برتنے پر روز محشر بارگاہ خداوندی میں کیا جواب پیش کریں گے؟ خادم اعلی نے قصور کی ان معصوم بچیوں کو اپنی بچیاں کیوں نہ سمجھا؟ انہیں عباس شریف یا حمزہ اور سلمان شہباز کی بیٹیاں کیوں نہ خیال کیا گیا؟ان کے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نے قصور کی اغواء ہونے والی تمام بچیوں کو مریم نواز شریف تصور کرتے ہوئے انہیں ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو سرعام عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے احکامات کیوں نہ دیے۔ یہ ان کے لیے واضح پیغام ہے کہ متاثرین ان سے داد رسی کے لیے فریاد کرنے کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان بچیوں کے غم زدہ والدین اسلام آباد کے ایوان اقتدار کے مکینوں اور تخت رائیونڈ کی جانب دیکھنے کی بجائے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پکار رہے ہیں۔ یہ عوام کا حکمرانوں پر عدم اعتماد ہے جب عوام کا اعتماد اپنے حکمرانوں پر سے اٹھ جائے توحکمرانوں کو سمجھ لینا چاہئیے کہ اقتدار کے دن ختم ہوگئے۔
اللہ ان مظلوموں کے خون کا حساب ضرور ان سے لے گا۔ حکمرانوں ان کے وزیروں مشیروں اور دست و بازو شمار ہونے والے ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں،اینکرز اور کالم نگاروں سے بھی جواب طلبی کی جائے گی باز پرس ہوگی کہ تم نے انہیں حالات کا آئینہ نہیں دکھایا تھا۔ آج لوگوں کی زبان زد عام ہے کہ یہ پاکستان نہیں جنگل ہے اور اس جنگل میں جنگل کا قانون ہے۔ لوگ برملا کہتے ہیں کہ اگر یہ زینب یا دیگر معصوم بچیوں کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا کسی اعلی پولیس افسر کے خاندان سے کوئی رشتہ ہوتا یا پھر کسی ارکان پارلیمنٹ کی بچیاں ہوتیں تو قاتل بھیڑیے کب کے کیفرکردار تک پہنچ چکے ہوتے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn