Qalamkar Website Header Image

نوازشریف کے لیے امتحان کی گھڑی – انور عباس انور

rp_Anwar-Abbas-Anwar-new-291x300.jpgجب سے ملک پانامہ پیپرز کی زد میں آیا ہے وزیر اعظم نواز شریف کا موقف رہا ہے کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں، ،وزیر اعظم کے اس بیان کی بنیاد پر ہی حکومتی وزرا اپوزیشن کو ہر فورم پر لتاڑتے چلے آ رہے ہیں کہ وزیر اعظم احتساب سے بھاگے نہیں اور نہ ہی گھبراتے ہیں انہوں نے تو خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے،ابھی گذشتہ دنوں وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کروایا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی ان کی کوئی آف شور کمپنی ہے۔
وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ خان کی جانب سے عدالت عظمی میں پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے ،جس کے ذریعے عدالت عظمی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمی پانامہ پیپرزکی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی حکومتی درخواست پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، اورعدالت عظمی کی جانب سے حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ا سی ہدایت کی روشنی میں قانون سازی کے لیے انکوائری کمیشن بل دو ہزار سولہ پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے جس کے باعث عدالت کو پانامہ پیپرز کی سماعت کا اختیار حاصل نہیں ہے، اور نہ ہی عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے۔
وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ خاں وزیر اعظم نواز شریف سے محبت رکھتے ہیں، اس سے قبل بھی وہ عدالت کے فورم پر حکومت کی مدد کے لیے فعالیت کے جوہر دکھا تے رہے ہیں، بھلے اس درخواست کا نتیجہ کچھ نہ برآمد ہو لیکن سماعت کے لیے درخواست منظور ہونے کی صورت میں کچھ وقت ضرور صرف ہو گا، جس سے معاملہ طوالت پکڑے گا،اور اس کے ثمرات براہ راست وزیر اعظم اور حکومت کو حاصل ہونگے۔
عدالت عظمی میں داخل کروائے گئے جوابات میں وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادوں نے ان سب باتوں کا اعتراف کر لیا ہے جن میں بیرون ملک جائیدادیں ان کی ملکیت ہونا بھی شامل ہے، لندن میں فلیٹس کے خرید نے کے لیے سرمایہ کا حصول دبئی کی مل بتائی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ دبئی مل کے لیے سرمایہ کیسے دستیاب ہوا؟ اور جدہ سٹیل ملز لے لیے فنڈنگ کہاں سے ہوئی۔ یہ وہ سولات ہیں جو وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اقتدار کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں، اب یہ نہ تو نگلے جا سکتے ہیں اور ناہی باہر نکالے جا سکتے ہیں۔
ایک خبر گردش میں ہے کہ وزیر اعظم نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا ہے اور ان سے ان کے پیر اعجاز شاہ کی خدمات حاصل کی ہیں خبر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر اعجاز نے وزیر اعظم کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ انہیں ان کی مدت پوری کروا دیں گے، بشرط یہ کہ ان کی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے گا، جیسے وہ کہیں گے ویسا ہی کرنا ہوگا، بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے مکمل تابعداری کا یقین دلایا ہے۔سنا ہے کہ پیر اعجاز شاہ سے رابطے کے بعد وزئر اعظم نے سکھ کا سانس لیا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کو یقین ہے کہ آصف زرداری کا پیر انہیں مشکلات کے بھنور سے صحیح سلامت نکال لے گا۔
معروف صحافی اور دانشور حسن نثار نے پولیس کے ہاتھوں مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کی پٹائی پر انتہائی دکھ اور کرب کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مصور پاکستان کی روح پولیس کے ہاتھوں پٹتے اپنے پوتے کو دیکھ رہے پوتے تو ان پر کیا گزری ہوگی اور اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ یہ منظر دیکھ کر مرجاتے اور ہاتھ ملتے ہوئے کہتے کہ اس پاکستان کا خواب انہوں نے دیکھا تھا؟ مجھے بھی جناب حسن نثار سے کلی اتفاق ہے ، لیکن کہنا یہ چاہوں گا کہ جناب ایسا کوئی پہلی بار ہوا ہے؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور وہ ہمشیرہ جس نے اپنا تن من دھن اس وطن عزیز کے حصول کے لیے قربان کیا، اسے انتخابات میں دھاندلی سے ہروادیا اور ان کی ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والی تقریر مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ میں تو ابھی طفل مکتب ہوں۔
لیاقت علی خان جنہیں شہادت کے بعدشہید ملت کے لقب سے نوازا گیا، جس کے نام پر راولپنڈی کے باغ کو منسوب کیا گیا،کے ساتھ کیسا ناروا سلوک روا رکھا گیا ، دن دہاڑےانہیں پنجاب کی سرزمین پر قتل کردیا گیا اور قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ کس کس چیز اور ناانصافی کا رونا رویا جائے۔ اگر آج سے چودہ سو سال پہلے دس محرم کے روز نبی کریم زندہ ہوتے یا ان کی روح پاک نے وہ سلوک دیکھا ہوتا جو ان کے پیارے نواسے اور نواسیوں کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا تو ان پر کیا بیتتی؟
رہی بات اخلاقیات کی توہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین، حکمرانوں اور دیگر زعمائے ملت و سیاست میں اخلاقی جرآت ہے کہ وہ اپنے اندر موجود بری خصلت کا برملا اعتراف کریں، بس انہیں تو دوسرے کی داڑھی کا بال نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا۔جس دن ہمارے اندر اور باہر ایک ہو جائیں گے تو ہماری مشکلات بھی کم ہوتی جائیں گی، کوئی بھں بلیک میل نہیں کرسکے گا اور نہ کوئی دنیا کی کوئی طاقت ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے کی ہمت کر پائے گی۔
اس وقت ملک جس بحرانی کفیت یا صورتحال سے گزر رہا ہے اسکا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے رفقائے کار اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے شائستگی،اخلاقیات کا دامن تھامے رکھیں کیونکہ کچھ حلقوں کا پروپیگنڈا ہے کہ آپ کا میڈیا سیل اپنے مخالفین کی کردار کشی کی مہم چلا رہا ہے اور اس ضمن میں شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پار کر رہے ہیں، جس سے آپ کے 1990 کی سیاست میں واپس جانے کے اشارے ملتے ہیں، لہذا ایسا نہ ہو کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے جنون میں وطن عزیز جمہوریت کی نعمت سے ہی محروم ہوجائے اور ملک و قوم ایکبار پھر آمریت کے تاریک سایہ کی لپیٹ میں آ جائے، وزیر اعطم اور ان کے رفقائے کار یوں سمجھ لیں کہ ان کے لیے امتحان کی گھڑی ہے اور انہیں اس امتحان میں ناکام نہیں ہونا بلکہ ہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے، اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس