کیا بھارت پاکستان کے لیے واٹر بم تیار کر رہا ہے، کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیوں میں سنجیدہ ہے؟ کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کے ضامنوں کے لیے چیلنج بن رہا ہے اور مسائل پیدا کر نے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روک سکتا ہے اور مستقبل میں پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرسکتا ہے؟، یہ وہ سوالات ہیں جو آجکل عالمی سطح پر زیر بحث ہیں۔
پچھلے دنوں سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو انتباہ کیا کہ وہ ہمارا پانی بند کرکے دیکھ لے ، ہم اسے منہ کے بل گرا دیں گے ، انہوں نے بھارت کو چیلنج کیا کہ ہم آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے ہم نے پوری تیاری کر رکھی ہے، پانی کے متبادل ذرائع تلاش کر لیے ہیں۔ کیا سابق صدر کی باتیں محض دیوانے کی بڑ ہے یا واقعی ہم نے آنے والے پانی کے بحران سے نبٹنے کے لیے ہوم ورک کیا ہوا ہے ؟ عام تاثر یہی ابھارا جا رہا ہے کہ آئندہ دنیا میں خصوصا پاک بھارت کے درمیان جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گے۔کیا واقعی آنے والے ایام میں ایسا ہی ہونے جا رہا ہے؟
پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر نے تنبیہ کی ہے کہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی،کونسل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی قطار میں آن کھڑا ہوا تھا جن کے ہاں آبادی زیادہ تھی اور پانی کے ذخائر کم، اور 2005 میں پاکستان ایسے دیسوں کی فہرست میں آگیا جنہیں پانی کی کمی کا سامنا تھا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس صورتحال سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ صورت جاری رہی تو عنقریب پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی ،جس سے پانی کی خشک سالی کے سامنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کی یہ درینہ خواہش رہی ہے اور وہ اس کی تکمیل کے لیے کوشاں بھی ہے، کہ وہ پاکستان کے دریاؤں پر زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر اس کے حصے کے پانی کو ذخیرہ کرے اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے جا سکیں، جن میں پاکستان کو خشک سالی جیسے بحران سے دوچار کرنا بھی بھارت کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے،بھارت پانی کے مسائل کو کشمیر کے مسئلے میں دباؤ کے طور پر استعمال کر رہا ہے، بھارتی منصوبہ یہ ہے کہ وہ دریائے سندھ ، چناب اور جہلم سے نکلنے والے پانی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرے ، بھارت کی آرزو ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے سے الگ تھلگ ہوجائے،بھارت کے وزیر اعظم پانی کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر لے رہے ہیں اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی قائم کر رکھی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے لاکھوں عوام کا مکمل انحصار اس دریائی پانی پر ہے ،اقوام متحدہ کے زیر اثر عالمی بینک کی زیر نگرانی،پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 سندھ طاس معاہدہ طے پایا، جس کے تحت پنجاب سے بہنے والے مشرقی دریاؤں بیاس ،راوی اور ستلج پر زیادہ کنٹرول بھارت کا ہوگا اور ان دریاؤں کا زیادہ پانی بھارت استعمال کرے گا،جبکہ جموں سے بہنے والے تین دریاؤں چناب ،جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا یعنی ان دریاؤں پر پاکستان کا کنٹرول ہوگا۔
سندھ طاس معاہدہ پر دونوں ممالک کے تحفظات اپنی جگہ قائم ہیں ، اور متعدد بار ایسے مواقع بھی آئے جب اس معاہدے کو ختم کرنے کی باتیں بھی ہوئیں، لیکن اس سب کے باوجود سندھ طاس معاہدہ اپنی جگہ برقرار ہے،پاکستان کئی بار بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے،پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیر میں چناب،جہلم اور دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے متعدد ڈیم تعمیر کر رہا ہے، لیکن بھارتی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
پاکستان کے لیے سندھ طاس معاہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ پاکستان کی معیشت کا سارا دارومدار زراعت پر ہے، اور اس کے لیے پانی کا حصول دریاؤں سے ہوتا ہے،بھارت مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں سندھ ،چناب اور درائے جہلم پر 15سے زائد ڈیمز تعمیر کر چکا ہے جبکہ مزید ڈیمز بنانے کے منصوبے پر کام کرہا ہے جن کی تعداد کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ 45 سے 61 ہے۔اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز کی تعمیر سے پاکستان کے حصہ کے پانی میں خاطر خواہ کمی واقع ہونے کا احتمال ہی نہیں یقین کامل ہے، اس کمی سے پاکستان کی زراعت تباہ ہوجائے گی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف برقرار رہے بلکہ اس میں طے شدہ امور اور پانی کی تقسیم کے فارمولے پر من و عن عمل درآمد بھی کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بھارتی دھمکیوں سے پریشان ہوجاتا ہے۔
عالمی بنک اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام اس لیے رہا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اور نہ ہی غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے،اسی سال اپریل میں امریکا کی مداخلت اور کوششوں سے سکریٹری سطح پرپاک بھارت مذاکرات واشنگٹن میں ہوئے،ان مذاکرات میں کشن گنگا ڈیم اور ریٹل ہائیڈروپراجیکٹ سمیت دیگر متنازع امور بھی زیر بحث آئے، سکریٹریز سطح کے ان مذاکرات میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دہمکی بھی زیر بحث آئی اور بھارتی وفد کے سربراہ نے اس کی تردید کی اور یقین دلایا کہ بھارت اس معاہدے کی پاسداری کرتا رہے گا۔
بھارت ہمارا پانی ہتھیانے میں آج سے نہیں بلکہ ضیا دور سے جتا ہوا ہے، میڈیا نے شور مچایا لیکن جنرل ضیا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ،وہ اپنے اقتدار کو مضبوط اور طول دینے کی حکمت عملی بناتا رہا، اور بھارت سلال ڈیم سے لیکر نہ جانے کتنے ڈیمز بنا گیا،یہ سچ ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں پاکستان اور بھارت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے زیر کنٹرول دریاؤں ، اس کے معاون دریاؤں ،ندی نالوں اور جھیلوں کے بہاؤ کو استعمال کرکے توانائی کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں ،سندھ طاس معاہدے کی کوئی فریق خلاف ورزی نہ کرے تو اس کے لیے انڈس واٹر کمشنر مقرر ہیں، جو اس بات کی نگرانی کرتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بے چین دکھائی دیتا ہے مگر ہم نے کیا کر رہے ہیں، ہم ابھی تک کالا باغ ڈیم پر اٹکے ہوئے ہیں، کیا ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بھارت کی چھاتی پر مونگ نہیں دل سکتے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی بھارت کے زیر کنٹرول دریاؤں ، اس کے معاون دریاؤں ،ندی نالوں اور جھیلوں کے پانی کے بہاؤ پر بجلی بنانے کے منصوبے شروع کر دیں ، کیونکہ بھارت جیسے غیر ذمہ دار اور جنونی ” باتوں "کی زبان سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn