Qalamkar Website Header Image

تمباکونوشی سے اموات میں دگنا اضافہ-انور عباس انور

عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمباکو نوشی سے ہر سال 70 لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں،آج سے سولہ سال قبل یہ شرح 35 لاکھ سالانہ تھی جو اب دگنی ہو چکی ہے،عالمی ادارہ صحت کی سربراہ مارگریٹ چین کا کہنا ہے کہ تمباکونوشی جسے ہمارے ہاں عرف عام میں سگریٹ نوشی بھی کہا جاتا ہے، کا استعمال ا مراض قلب سے لے کر پھیپھڑوں کے سرطان کا موجب بنتا ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تمباکو نوشی سے مرنے والے 70 لاکھ افراد میں سے 800 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے،
اور ان ممالک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر خرچ ہوجاتا ہے، اقوام متحدہ کے قوانین کے باعث بعض ممالک میں اس لت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ایک طبی جریدے "لینسٹ” کی ایک ماہ قبل شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2016 میں تمباکو نوشی سے موت کی آغوش میں جانے والوں کی تعداد64 لاکھ تھی ، اس طبی جریدہ نے دعوی کیا ہے کہ 2030 تک تمباکو نوشی کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین دگنا تک پہنچ جائے گی۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کے لوگ تمباکو نوشی کے نقصانات پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کے اخراجات سالانہ برداشت کر رہے ہیں،اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے بعض ممالک میں تمباکو سے تیار مصنوعات مہنگی کرنے کے اقدامات کو سراہا ہے کہ سگریٹ مہنگی ہونے سے اس لت میں کمی واقع ہوئی ہے، البتہ ادارے نے ترقی پذیر ممالک میں تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کا استعمال دنیا میں غربت اور پسماندگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہے ، اور یہ بھی کہا جا رہا ہے ، کہ سگریٹ نوشی کے عادی افراد کم آمدنی کے باعث اپنی دیگر ضروریات کے حصول کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرتے پائے گئے ہیں،کیونکہ اس لت کے عادی افراد اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اس لت کو پورا کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق سگریٹ نوشی کے استعمال کے نتیجے میں مرنے والے سال کے آخرتک ارب کا ہندسہ عبور کر لیں گے،یہ امر انتہائی تشویش ناک بھی ہے اور فوری لائق توجہ بھی، حکومت اور اس کے اداروں کو تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں،کیونکہ ان اموات سے ملک کی بدنامی بھی ہورہی ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی بھی، حکومت تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے خصوصی مہم چلائے، اس آگاہی تحریک میں لوگوں کو تمباکونوشی کے نقصانات اور مضر اثرات سے روشناس کرائے۔
حکومت کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا پر تمباکو نوشی کی تشہیری مہم پر پابندی قابل تعریف ہے، لیکن ہماری فلموں اور ڈراموں میں سگریٹ پینے کے سین دکھانے کے باعث تمباکو نوشی کے ضمن میں کئے جانے والے اقدامات کی اہمیت و افادیت کم ہوتی ہے، لہذا فلموں اور ڈراموں سمیت دیگر تقریبات میں تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کی جانی لازمی امر ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ تمباکو نوشی کے خلاف مہم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے، اور اسے جنگی بنیادوں پر چلائے ، سرعام پبلک مقامات، تفریحی پارکوں ، لاری اڈوں، گاڑیوں اور ویگنوں میں اس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے ، ویسے پابندی تو پہلے بھی ہے لیکن اس کی خلاف ورزی کو کرنے والوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، نہ پولیس کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی لوکل انتظامی مشینری اس کے خلاف متحرک ہوتی ہے، جس سے لا محالہ تمباکو نوشی پر عائد پابندی کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور انہیں مزید قانون شکنی کرنے کی شہ ملتی ہے۔اگر تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے آگے بند نہ باندھا گیا تو یہ نہ صرف صحت کے لیے خطرات کاباعث ہوگا بلکہ ملکی معیشت کے کے لیے بھی تباہی کا سبب بنے گا۔
بات قانون کی پاسداری کی چل نکلی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ وہ تمام ممنوعہ اشیاء ہماری جیلوں میں بھی دستیاب ہو رہی ہیں، اور انہیں یہ اشیا فراہم کرنے والے عام لوگ نہیں بلکہ جیل کے اہل کار ہی ہوتے ہیں، جو چند ٹکوں کی خاطر جیل قوانین کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں، اور یہ محض چھوٹے اہل کار اپنے زور بازو پر نہیں کرتے انہیں جیل کے اعلی حکام کی مکمل حمایت اور آشیرباد حاصل ہوتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر قانونی اشیا انہیں جیل حکام سے حاصل ہوتی ہیں، ورنہ ان چھوٹے موٹے اہل کاروں کی کیا مجال کہ وہ منشیات سمیت دیگر غیر قانونی اشیا جیل کے گیٹ کے اس پار لے جا سکیں۔
ہماری جیلوں کے اندر قائم ریاستوں کی کہانیاں آئے دن میڈیا کی شہ سرخیاں بننے کا اعزاز حاصل کرتی رہتی ہیں، اور وقتی طور پر اہل کاروں کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے کی خبریں بھی شائع اور نشر ہوتی ہیں ، لیکن یہ سب حکومت کے اعلی عہدیداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہوتی ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی دوبارہ یہ اہل کار اپنی پرانی ڈیوٹی پر بحال کردیئے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جیلوں کے اندر اور باہر تمباکو نوشی اور دیگر غیر قانونی دھندوں کو فروغ حاصل ہوتا رہتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک کے خلاف تمباکو نوشی کے حوالے سے قوانین مزید سخت کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، حکومت اقوام متحدہ کے متحرک ہونے سے قبل ہی اقدامات کرلے تاکہ کسی قسم کی مشکل سے محفوظ رہا جائے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تمباکو نوشی سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے ایک لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،اس وقت پاکستان میں تقریبا 25 ملین افراد سگریٹ پینے کی لت کا شکار ہیں، جن میں 36 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین شامل ہیں۔غیر سرکاری آرگنائزیشن نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے مطابق پاکستان میں 5 لاکھ دکانوں اور کھوکھوں پر سگریٹ اور دیگر اشیاء جن میں کسی نہ کسی صورت تمباکو استعمال ہوتا ہے، باآسانی دستیاب ہیں،آرگنائزیشن کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ روزانہ طلوع آفتاب کے ساتھ 1200سے زائد بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں لہذا حکومت کے 2002 کے صحت آرڈینینس پر پوری قوت سے عمل درآمد کیا جائے اور ہر قسم کی رکاوٹوں کو تہس نہس کر کے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جائے، اور سیاسی معاملات کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کرنے کو بھی سنجیدہ لیا جائے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس