اللہ کے فضل سے عرب امریکن اسلامک کانفرنس سے خطاب کرکے اسلامی ممالک کے نئے رہبر و راہنما جناب ڈونلڈ ٹرمپ واپس واشنگٹن پہنچ چکے ہیں، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے علاوہ ٹرمپ اسرائیلی دارالخلافہ تل ابیب کا چکر بھی لگا آئے ہیں، تل ابیب میں امریکی صدر کے قیام کا مقصد اسے یہ خوشخبری دینا تھی کہ عرب ممالک اب اسے اپنا دشمن نہیں سمجھتے بلکہ اب ان کا کھلا اور سب سے بڑا دشمن ایران بن چکا ہے، لہذا وہ عرب ممالک کی طرف سے بے فکر ہو جائے اور اپنی ساری حکمت عملی عرب ممالک ،اسرائیل اور امریکا کے مشترکہ دشمن "ایران” کو مدنظر رکھ کر تیار کرے۔
سعودی عرب میں عرب اور غیر عرب اسلامی ممالک کا اجتماع منعقد کرنے کا مقصد ایران کے خلاف اپنی طاقت شو کرنا تھا،اور امریکا سے جدید اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کرنا تھا، اس موقعہ پر سعودی عرب نے 380 بلین ڈالرز کا اسلحہ خریدنے کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں، اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوجانے کے بعد سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ان خیالات اور جذبات سے اتفاق کیا جن میں شاہ سلمان نے ایران کو دہشت گرد،دہشت گردی پھیلانے کا مرکزاور منبع قرار دیا تھا۔ سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے معاہدوں پر دستخط ہونے جانے سے قبل شاہ سلمان کی جانب سے ایران کو دہشتگردی کا منبع کہنے والی بات سے اتفاق نہ کرکے سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کو کیا سبق دینے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب کی کوششوں سے قائم ہونے والے درجنوں اسلامی ممالک پر مشتمل دفاعی اتحاد کی تشکیل کے وقت اور اس میں ہماری ایک حکم نامے کے ذریعے شمولیت تک، پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا تی رہی ہے کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بنایا جا رہا بلکہ عالمی دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے قائم کیا جا رہا ہے، اب جب کہ ریاض کانفرنس کے توسط سے بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے ،اور شاہ سلمان اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس دفاعی اتحاد کے مقاصد کو پوشیدہ نہ رکھ سکے، شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خوشی دیدنی تھی، سعودی عرب اس کانفرنس جسے ایران کے دوسری بارمنتخب ہونے والے صدر حسن روحانی نے عملی اور سیاسی حثیت سے عاری(خالی) شو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مشرق وسطی میں امن ایران کے بغیر ممکن نہیں، ایرانی صدر نے سعودی عرب کے امریکا سے دفاعی اور تجارتی معاہدوں کے متعلق کہا کہ "اپنے عوام کے پیسے سپر پاور کو دینے سے ماسئل حل نہیں ہوتے”ایرانی صدر نے واضح کیا کہ ایران میزائل تجربات جاری رکھے گا۔
ریاض کانفرنس تو ختم ہو چکی ، اسلامی اور دیگر ممالک کے سربراہان کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ دور کرنے میں مصروف ہوں گے، لیکن ہمارے میڈیا میں بحث ہو رہی ہے کہ اس عظیم الشان کانفرنس میں ہمارے وزیر اعظم کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ کیونکر فراہم نہ کیا گیا؟حالانکہ ، ہمارے وزیر اعظم تو ریاض سے آنے والی ایک تحکمانہ کال کے باعث چین سے واپسی پر بغیر کسی لمحے کی تاخیر سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچ گئے تاکہ کسی قسم کی حکم عدولی سے محفوظ رہا جا سکے ۔دفترخارجہ نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نواز شریف کو شرف ملاقات بخشا، لیکن دفتر خارجہ مصر کے آمر عبدالفتح السیسی سے ٹرمپ کی ملاقات کی تصویر میڈیا کو جاری کی گئی، اس کے علاوہ ٹرمپ یا سعودی عرب کے بادشاہ کی اپنے مہمان عزت ماب ٹرمپ سے امیر کویت جابر الاحمد الصباح ، امیر بحرین عیسی بن الخلیفہ،اور امیر قطر تمیم بن حماد التہانی کی ملاقاتوں کی کہانیاں اور تصاویر بھی سعودی اور عالمی میڈیا کی زینت بنی ہیں، ان کہانیوں میں ٹرمپ اور ان سربراہان مملکت کے درمیان ہونے والے اہم اور دلچسپ "ڈائیلاگ” بھی شائع ہوئے ہیں،لیکن ہمارے دفتر خارجہ نے محض ملاقات کی خبر پر ہی اکتفا کیا،وزیر اعظم کو دفتر خارجہ کی اس کوتاہی اور غفلت کا نوٹس لینا چاہیے۔
ٹرمپ نواز شریف ملاقات میں کیا کیا باتیں زیر بحث آئیں اس سے پوری دنیا بے خبر ہے، وزیر اعظم کے اس دورہ ریاض میں پاکستان کا کردار محض مہمان اداکار سا رہا، شاہ سلمان کا فرض بنتا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کو کھینچ کر اپنے درینہ برادر دوست کے پاس لاتے اور نواز شریف کا تعارف کرواتے، بے شک یہاں تک کہہ دیتے کہ جناب ٹرمپ ! یہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں اور یہ ہمارے اتنے ہی وفادار اور تابعدار ہیں جتنے مصر کے فوجی آمر، امیر کویت،امیر بحرین اور امیر قطر ہمارے وفادار ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی دوستی اور بھائی چارے کا حق ادا نہیں کیا ،شائد سعودی فرماروا اور صدرٹرمپ کو ہماری وفاداری اور تابعداری پر اعتبار نہیں۔
ہمارے برادر ایمانی کو اگر ہماری تابعداری پر اعتبار ہوتا تو کانفرنس میں ہماری شرکت کو مہمان اداکار جتنی اہمیت کبھی نہ دی جاتی کیونکہ ہم(پاکستانی) بھی عزت دار ہیں، اور ایٹمی قوت کے حامل بھی ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک ممالک میں کسی اور کے پاس ایٹمی صلاحیت نہیں ہے، لیکن ہمیں مصر،بحرین ،قطراور کویت جتنی بھی اہمیت دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس سارے قصے سے جو بات میں سمجھ سکاہوں وہ یہ ہے کہ غلاموں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی عزت،ان غلاموں کے مالکان جیسے چاہئیں ان سے سلوک روا رکھیں یہ کچھ بول نہیں سکتے کیونکہ ان غلاموں نے چند ٹکوں کے عوض اپنی عزت ،غیرت کاسودا کر رکھا ہوتا ہے۔
ہماری افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں، سعودی عسکری اتحاد کی کمان پاکستانی جنرل راحیل شریف کے سپرد کرنا اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے، ہاں ایک بات جو بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ صدر ٹرمپ کو ایران کے مقابل واحد سہارا سمجھنے والوں نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے سوڈان کے صدر عمر البشیر کو بھی منع کردیا، کیونکہ مہمان صدر ٹرمپ کو ان کی شکل پسند نہیں، لیکن کسی بھی اسلامی و عرب ملک نے اس زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ کیا سوڈان اسلامی ملک نہیں؟
پاکستان اور امریکا سمیت متعدد ممالک کے سابق حکمران کی گذر بسر تعلیمی اداروں اور تھنک ٹینکس میں تقاریر کے عوض ملنے والی رقوم سے ہوتا ہے، بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی مثال پیش کی جا سکتی ہے لیکن میری نظر میں ان راہنماؤ ں کو تقاریر کا معاوضہ اتنا نہیں ملتا ہوگا جتنا صدر ٹرمپ کی کانفرنس میں کی گئی تقریر کو ملا، صدر ٹرمپ کی تقریر 380 بلین ڈالرز میں سعودی حکمرانوں کو پڑی ہے، اس لحاظ سے یہ تقریر دنیا کی مہنگی ترین تقریر قرار دی جا سکتی ہے۔
ریاض کانفرنس میں شریک ہونے سے پاکستان کو کچھ ملا ہو یا نہیں البتہ وزیر اعظم کو حرمین شریفین کی زیارت کا شرف ضرور حاصل ہو ا،یہ شرف بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے، ہمارے اردگرد لاکھوں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو صاحب ثروت و مال دار ہونے کے باوجود حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سے محروم ہیں، امریکا اور ٹرمپ خوش قسمت ہیں کہ انہیں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ملی، اس سے ٹرمپ
کے اس نعرے میں سچا ہونے کی گواہی ملی کہ سب سے پہلے امریکا۔ ٹرمپ زندہ باد امریکا پائیندہ باد۔
حسب معمول ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اس کانفرنس کے ذریعہ بلی تھیلے سے باہر آنے کے باوجود یہی کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد کسی ملک یا قوم کے خلاف نہیں، پاکستان کی پالیسی واضح ہے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ شاباش لینے کی حامل ہے ،کیونکہ اس نے وقت کے ساتھ عقل سے کام لینا نہیں سیکھا، اسی اسٹیبلشمنٹ نے اس سے قبل وجود میں ٓانے والے مغربی اتحادوں میں شمولیت اختیار کرتے وقت یہی قوم کو بتایا تھابقول وسعت اللہ خان کہ "یہ اتحاد کیمونسٹ روس اور چین کے خلاف نہیں” اور بڈ بیر کا ہوائی اڈا امریکیوں کو دیتے وقت یہی کہا کہ ہماری سویت یونین سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔اسٹٰیبلشمنٹ کب تک جھوٹ بول کر حقائق پاکستانی قوم سے چھپاتی رہے گی؟
پاکستان میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ریاض کانفرنس میں پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا گیا،اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ اپنی ناکامی اور بے عزتی کو یہ کہہ کر چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ "کانفرنس تاخیر سے شروع ہوئی اس لیے کئی ممالک کے ساتھ ہمیں بھی تقریر کا موقعہ فراہم نہیں ہوا” کوئی بے عقل ہی ہوگا جو نفیس ذکریا کے اس موقف اور دلیل سے اتفاق کرے گا، دفتر خارجہ کو اصل صورت حال سے پاکستانی عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn