دنیا کے تمام ممالک میں منتخب اور غیر منتخب حکومت کے لیے پہلے سو دن اہم ہوتے ہیں، ان پہلے سو دنوں کی کارکردگی کا انحصار ان کے انہی سو دنوں پر ہوتا ہے، حکومتوں کی سمت کا تعین بھی یہی پہلے سو دن ہی کرتے ہیں، حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی اور ان کے مستقبل کے متعلق جائزہ لینے کے لیے پہلے سو دن ہی کیوں اہم قرار دیئے گئے ہیں یا سمجھے جاتے ہیں، یہ سوال اس حوالے سے بہت اہم ہے۔
پہلے سو دنوں کو اس لیے اہمیت دی جاتی ہے ،کہ انتخابی مہم کے دوران لہو اور جذبات جوش میں ہوتے ہیں، اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوتا ہے، اس لیے ماہرین اور پارلیمنٹرین کا خیال ہے کہ جو سیاسی جماعت برسراقتدار آتی ہے، اسکی قیادت گرم لہو اور بھڑکتے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے منشور اور انتخابی پروگرام اور انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ضرور کرتی ہے، تاکہ عوام کو باور کرایا جا سکے کہ وہ ان سے مخلص ہے۔بعض منتخب حکومتیں تو اپنے اقتدار کے پہلے سودنوں میں اپنے انتخابی وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں، شائد حکمرانوں کے ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے ۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ جو انتخابابت میں نہ صرف خود منتخب ہوئے بلکہ ان کی جماعت کو دونوں ایوانوں میں بھی اکثریت حاصل ہوئی ہے، انہوں نے بھی گزشتہ دنوں اپنے اقتدار کے پہلے سودن مکمل کر لیے ہیں،اور صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے ترتیب دی گئی تقریبات کو بہت انجوائے کیا، اگر دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جابسنے کے پہلے سودن کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ انہیں ان پہلے سودنوں میں ناکامی پر ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق سات مسلم ممالک کے باشندوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی تو اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، امریکا بھر اور دیگر ممالک میں احتجاجی جلسے و جلوسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، بعد ازاں امریکی عدالت نے صدر ٹرمپ کے احکامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کردیا، صدر ٹرمپ نے سابق صدر اوبامہ کے ہیلتھ پروگرام کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تو انہیں بھی ایک امریکی عدالت نے منسوخی کی راہ دکھائی۔ تیسری بار امریکی صدر نے ایک بار پھر مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا تو اس کے راستے میں امریکی عدالت دیوار بن کر حائل ہوگئی،سابق صدر اوبامہ کے ہیلتھ پروگرام کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اس پروگرام کا متبادل پروگرام فراہم نہ کرسکے۔
امریکی صدر جناب ڈونلڈ جے ٹرمپ نے پہلے سو دنوں میں افغانستان میں "بموں کی ماں” بم گرا کر ثابت کیا کہ وہ جو کہتے ہیں اسے کرتے بھی ہیں، ایسے ہی انہوں نے شام پر فضائی حملے کے احکامات کا اجراء کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا، یعنی سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ایک جنونی شخص کا نام ہے، جس پر مسلم دشمنی اور کمزوروں پر چڑھائی کرنے کا خبط سوار رہتا ہے۔ شام پر بمباری کرنے کا جواز یہ تراشا گیا کہ بشارالااسد انتظامیہ نے اپنے مخالفین کے خلاف کیمیائی اور زہریلے ہتھیار استعمال کیے ہیں، لیکن یہ سب فراڈ ہے، اس سے قبل بھی امریکی اتحاد عراق اور افغانستان پر ایٹمی ہتھیاروں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرکے انہیں برباد کرچکے ہیں ،جبکہ بعد میں تسلیم بھی کیا کہ عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات جھوٹی نکلیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے سو دنوں میں اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کئے وعدوں کو پورا کریں جس کی مثال اوپر بیان کرچکا ہوں کہ انہوں نے سابق صدر باراک حسین اوبامہ کے ہیلتھ پروگرام کو ختم اور سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا کے دروازے بند کرنے کے احکامات جاری کیے، یہ الگ بات ہے کہ صدر ٹرمپ کے وعدوں اور ارادوں کے راستوں میں عدالت آن کھڑی ہوئی اور عدالت نے صدر ٹرمپ کے جاری کردہ احکامات کو دو بار غیر آئینی قرار دیکر صدر ٹرمپ کے خوابوں پر پانی پھیر دیا۔ایسے ہی صدر ٹرمپ نے شام پر مہلک بمبوں کی بمباری کرکے امریکی عوام کو اپنی مسلم دشمنی کے مناظر دکھائے، اور اس طرح افغانستان پر بمبوں کی ماں گرا کر بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اسے پورا بھی کرتے ہیں،۔
امریکی صدر جے ٹرمپ اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے بہت مطمئن ہیں، اور اپنی کارکردگی کو تسلی بخش بھی قرار دیتے ہیں، ڈونلڈ جے ٹرمپ کے مطمئن ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے سو دن کی مناسبت سے منائی جانے والی تقریبات میں شرکت کی، اور ریپبلکن پارٹی کی گڑھ ریاست میں پہنچ کر ایک شاندار ریلی میں خصوصی طور پر شرکت بھی کی،اس حوالے سے یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ برسوں سے وائٹ ہاؤس میں انعقاد پذیر ہونے والی تقریب( صحافیوں کے لیے ڈنر) میں شرکت نہیں کی، صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ ان کی کارکردگی سے صرف صحافی اور اینکرز مطمئن نہیں جبکہ امریکی عوام بہت خوش ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے صدر ٹرمپ کا کہنا چاہتے ہوں کہ وہ میڈیا کی آنکھوں کا تارا بننے کی بجائے امریکی عوام کے دلوں میں بسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لگے ہاتھ اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر جے ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم کے درمیان بہت ساری چیزیں قدر مشترک ہیں، دونوں مذہبی رجحانات کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، دونوں کی سیاسی جماعتیں قدا مت پسند شہرت کی حامل ہیں، دونوں صدور اور ان کی پارٹیاں بھارت سے تعلقات کو خصوصی ترجیح دیتے ہیں، امریکی صدر کے گزشتہ سو دن اہم تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے آنے والے 100 دن بہت اہم قرار دیئے جا رہے ہیں، دونوں راہنماؤ ں کو اندرونی طور پر مخاصمت کا سامنا ہے۔
اس سب صورتحال کے باوجود دونوں راہنما پر امید ہیں کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوں گے، امریکی صدر کو امریکی عدالتوں اور وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے ماتحت ریاستی ادارے کی مزاحمت نے پریشان کر رکھا ہے، چھٹی کے باوجود پاکستانی وزیر اعطم نے اپنے قریبی رفقائے کار سے خصوصی مشاورت کی ہے، ڈان لیکس اور پانامہ کیس پاکستانی لیڈر کے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں،
وزیر اعطم پر دباؤ ہے کہ وہ ڈان لیکس کے اہم کرداروں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابق معاون خصوصی سید طارق فاطمی، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور راؤ تحسین ذاتی طور پر اتنا اہم فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو کسی کی ہلہ شیری انہیں حاصل ہوگی ، پاک فوج اور اپوزیشن اس ہلہ شیری کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn