ہمارا معاشرہ اس مقام پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں ماں باپ اپنی اولاد پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں، اولاد اپنے والدین کو شک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے،استاد شاگرد کو ناقابل یقین قرار دیتا ہے، ڈاکٹر اپنے مریضوں کو مشکوک اور مریض اپنے مسیحا ؤں کو قابل اعتبار سمھنے میں تذبذب کا شکار ہیں،وکلاء اپنے موکلان اور ججز کو اپنے منصب سے مخلص نہیں سمجھتے اور ججز وکلاء کو انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ذمہ دار قرار دیتے ہیں، ایسی ہی صورتحال دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں ہے۔
قیام پاکستان کی تحریک میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے بڑے بڑے علمائے دین، مفکرین،،باریش سیاستدانوں کے مقابل ایک ایسے راہنما و رہبر کا انتخاب کیا جو ان کی زبان روانی سے بول اور سمجھ نہیں سکتا تھا اور نا خواندہ عوام کے جم غفیر سے وہ انگریزی میں خطاب کرتا تو ناخواندہ عوام کا سمندر تالیاں بجا کر ان کی کہی باتوں پر اعتبار کرتا، اور قائد اعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کرکے ان پر بھروسے کی سند عطا کرتا۔
بھروسے اور اعتبار و اعتماد کا یہ سلسلہ قائد ملت خان لیاقت علی خان تک برقرار رہا، پھر محلاتی سازشوں کی سیاست کے دور کا آغاز ہوا،بیوروکریٹس( سول اور ملٹری بیوروکریسی) نے سیاست اور سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی، اور سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور انہیں گرانے کا کھیل کھیلا ، میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا منصب چھوڑ اور وزارت عظمی سنبھال کر سخت غلطی کا ارتکاب کیا، کیونکہ گورنر جنرل کے منصب پر بیوروکریٹس نے قبضہ کرلیا اور پھر سیاسی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ نے آئین کی تیاری اور جمہوریت کے استحکام کے کام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جنرل ایوب خان کے فوجی ڈانڈے اور مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کی دبنگ شخصیت نے ایوب حکومت کی ساکھ کو مستحکم بنایا، اس کے بعد جنرل یحیی خان نے ایوب خان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
محلاتی سازشوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والوں اور پاکستان کا خون کرنے والوں نے بچے کھچے پاکستان کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کی،کیونکہ انہیں یقین کامل تھا کہ بھٹو کی جماعت کو گو اکثریتی پارٹی کی پوزیشن حاصل نہیں لیکن انہیں مغربی پاکستان کی عوام کا بھروسہ حاصل ہے، عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی شخصیت ان کے نزدیک قابل اعتبار ہے، پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات کی انتخابی مہم اور عوام کی بھٹو سے والہانہ محبت کے مناظر دیکھ چکے تھے۔
عوام کے سیاستدانوں پر بھروسے کی یہ آخری مثال تھی، اس کے بعد انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹو ں کے تناسب اور فیصد میں کمی ہوتی جا رہی ہے، جن انتخابات میں جیتنے والی پارٹی کل ووٹوں کا پچاس فیصد حاصل کرلے مہذب قومیں تو انہیں بھی قبولیت کی سند عطا نہیں کرتیں مگر یہ پاکستان کی سرزمین ہی ہے جہاں چالیس اور اس سے بھی کم شرح سے ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیاں خود کو عوام کی نمائندہ جماعت قرار دیتی ہیں۔اور اپنی مرضی کی پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔
عوام کا سیاستدانوں پر سے بھروسہ اٹھے، یا سیاست دانوں عوام کو ناقابل اعتبار سمجھنے لگیں تو ممالک اور قومیں جمہوریت سے ہاتھ دھونے لگتی ہیں، ممالک اور قومیں ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے تنزلی کی جانب رواں دواں ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اگر بزنس پارٹنرز کے مابین اعتماد کا فقدان پیدا ہو جائے تو ان کے بزنس کا سفینہ ڈوبنے لگتا ہے۔ ایسے ہیں 1970کے انتخابات میں عوام کے بھروسے، اعتماد اور اعتبار کے آگے سرتسلیم خم نہ کرنے کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگت چکے ہیں، لیکن پھر بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کی ضد ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔
اس وقت صورت حال جو دکھائی دے رہی ہے اس کے مطابق حکومت اور ریاست کے اداروں کے درمیان بھروسے ،اعتبار اور اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومتی وزرا اور دیگر اہلکار کہتے رہیں کہ ہر معاملے پر حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، ان سطور کے قلمبند کرنے کے دوران خبر آئی ہے کہ وزیر اعظم نے ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے پیرا گراف اٹھارہ کی منظوری دیدی ہے، وزیر اعظم ہاؤس سے اس حوالے سے نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوچکا ہے، اس نوٹیفیکیشن کے مطابق وزیر اعطم کے معاون خصوصی جناب طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، جبکہ پرنسپل آفیسر راؤ تحسین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے خلاف ایفی شینسی اینڈ ڈسپلینری رولز کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ راؤ تحسین کے خلاف قانونی ایکشن کی تکمیل میں دو چار مہینے لگ جائیں گے۔
دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل جناب آصف غفور کے بیان کے مطابق پاک فوج نے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری نوٹیفیکیشن کو مسترد کردیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اور پاک فوج کے درمیان "بھروسے، اعتبار اور اعتماد” کی فضا میں دراڑیں موجود ہیں،اور دکھائی دینے والے حالات سے تو لگتا ہے کہ اعتبار ،اعتماد اور بھروسے کے اس خلاء کے پر ہونے کی کم از کم مجھے تو مستقبل قریب میں امید نظر نہیں آرہی، ا ور نہ ہی ایسی قیادت موجود ہے جو اسلام آباد اور راول پنڈی سمیت دیگر ریاستی اداروں کے درمیان اعتبار ،اعتماد اور بھروسے کی عمارت تعمیر کرنے کی قدرت رکھتی ہو ا ،باقی اللہ معجزے دکھانے پر قادر ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک اللہ تعالی کی ذات کے فضل اور کرم کی بدولت ہی اس وطن عزیز کا سفینہ انتہائی گمبھیر اور سنگین بحرانوں سے نکلتا آرہا ہے، اس میں کسی شخصیت اور سیاسی جماعت کا کمال نہیں ، اور نہ ہی کسی دیگر ادارے کو یہ کریڈٹ جاتا ہے،سب کی حقیقت عوام پر عیاں ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی کے اعمال عوام کے سامنے آشکار ہو جاتے ہیں اور کسی کے نہیں۔
حکومت خصوصا وزیر اعظم کا فرض ہے کہ وہ ڈان لیکس ہو یا پانامہ لیکس کا معاملہ ہو اس حوالے سے عوام ،ریاستی اداروں کے مابین پائی جانے والی بے چینی کو کم کرنے کا حل جلد سے جلد تلاش کرے، ورنہ” نہ کھیڈاں گے اور ناں کھیڈن دیاں گے” کی حکمت عملی ملک و قوم کے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر جمہوری حکومت کے اپنے لئے ،مسائل بڑھتے جائیں گے۔اگر حکومت قبل از وقت انتخابات کروانے پر غور و فکر کر رہی ہے تو اس حوالے سے بھی جلد فیصلہ کرے۔اپنے کالم کا اس دعا کے ساتھ اختتام کرتا ہوں "اے اللہ اس ملک ،سرزمین اور اس میں بسنے والے عوام کو اپنی پناہ میں رکھنا، اسے دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رکھنا،اس کا برا سوچنے ،مانگنے اور دیکھنے کے متمنی بدخواہوں کو نیست و نابود کردے” آمین ثمہ آمین
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn