بھارت اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے 255 سال بیت گئے ہیں، بھارت اور اسرائیل اپنی دوستی کی سلور جوبلی منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے لیے بھی تیاریاں جاری ہیں۔ بھارت اسرائیل سے دفاعی سازو سامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہونے کی حثیت اختیار کر چکا ہے ، بھارت کے سرحدی مینجمنٹ، دفاعی نظام،قومی سلامتی سمیت دیگر شعبہ جات اسرائیل کی مشاورت اورتعاون سے چل رہے ہیں، بھارت نریندر مودی کے برسراقتدار آنے سے قبل اسرائیل اور عرب ممالک کو ساتھ لیکر چلتا آیا ہے، لیکن بھارت اب بھی دعویٰ تو یہی کرتا ہے کہ وہ دونوں کے ساتھ دوستی اور تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے، لیکن نریندر مودی اپنے دورہ اسرائیل جو کہ جولائی یا اگست میں متوقع سمجھا جا رہا ہے ،کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اس دورے میں مودی صاحب فلسطینی علاقوں کا دورہ نہیں کریں گے،ان سے قبل بھارت کے صدر پرناب مکھرجی جب اسرائیل کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے نہ صرف فلسطینی علاقوں کا دورہ کیا تھا بلکہ فلسطین کی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا ۔
نریندر مودی کا دورہ اسرائیل کسی بھارتی وزیر اعظم کا یہ اسرائیل کا پہلا دورہ ہوگا، بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات سے صرف نظر نہیں کرسکتا، اس کی پالیسی یہی ہے کہ سب کو ساتھ لیکر چلا جائے اور سب ممالک سے یکساں اور برابری کی سطح پر تعلقات استوار کیے جائیں اور ان تعلقات کی بنیاد بھارت کے مفادات مرکزی نکتہ ہوں، بھارت پہلے اسرائیل سے تعلقات کو عرب ممالک سے اس کے تعلقات سے جوڑتا تھا لیکن اب اس نے دونوں کو الگ الگ رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے ،کہا جا رہا ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ جے ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اسرائیل ا ور عرب ممالک سے تعلقات کے حوالے سے پالیسی اور موقف میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔پہلے بھارت کی جانب سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں نئی آبادیوں کی تعمیر کی مخالفت کی جاتی رہی ہے لیکن اب بھارت اس پالیسی پر نظر ثانی کرچکا ہے جس کی واضح مثال چند ماہ قبل اسرائیل پر لگائی جانے والی پابندیوں کی قرارداد پر بھارت کا غیر جانبدار رہنا ہے۔
اسرائیل بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی قربت اور چڑھائی جانے والی پیار محبت کی پینگیں پاکستان کے لیے "الارمنگ "صورتحال ہے، پاکستان کے اندر سے بھی گاہے بگاہے اسرائیل کے حق میں آوازیں ابھرتی رہی ہیں اور اب بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے حق میں دلائل کے انبار لگا سکتے ہیں، اور ایسے لوگوں کی بھی پاکستان میں کمی نہیں جو اسرائیل سے لین دین کر رہے ہیں اور اسرائیل کے دورے بھی کرتے رہتے ہیں، اب جب سعودی عرب سمیت عرب ممالک بھی اپنی اسرائیل دشمنی کی پالیسی میں تبدیلی لا رہے ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کو اپنے حق میں وقت کی ضرورت قرار دیکر اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہے ہیں، سعودی عرب اس کی بڑی مثال ہے۔ہماری بعض اسلامی جماعتیں اور تحریکیں بھی اسرائیل آتی جاتی رہتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کیا کرے؟ کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو اسرائیلی فوجی ماہرین کی مدد اور نصرت حاصل ہے اور پاکستان کے اندرونی حالات کوبگاڑنے میں بھی اسرائیل کی حکومت اور اسکی خفیہ ایجنسی موساد ملوث ہے۔ پاکستان میں حالات کو بگاڑنے کے لیے اسرائیل اور بھارت میں مشاورت اور تعاون موجود ہے، کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں دونوں ممالک ایک پیج پر ہیں،کیونکہ دونوں ممالک پاکستان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کی حکومت اپنی دھرتی سے محبت اوراس کے دفاع کے لیے پرعزم ہونے کی بنا پر یہ پوزیشن اختیار کرچکا ہے کہ دنیا کی سپر طاقتیں بھی اسے آنکھیں دکھانے کی جرآت نہیں کرپاتیں،سب تمنا یہی ہوتی ہے کہ اسرائیل کی نظر کرم اس پر مرکوز رہے۔ اس کی واضح مثال اقوام متحدہ کی جانب سے منظور ہونے والی قرارداد پر اسرائیل سربراہ حکومت نے امریکی صدر اوبامہ کو نہ صرف آنکھیں دکھائیں بلکہ کھری کھری بھی سنائیں اور دنیا کی واحد سپر پاور کے طاقتور حکمران اسرائیل کو کچھ کہنے کی ہمت کرنے کی بجائے وضاختیں کرتے پر ہی اکتفا کرتے رہے۔چھوٹے سے اسرائیل نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک تعداد میں اس سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اور ہم ایٹمی قوت ہوکر بھی واشنگٹن سے آنے والی ایک فون کال پر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے مارشل لا کے بعد اسرائیل سے راہ رسم پیدا کرنے کی سبیل کا آغاز ہوا ، پھر ضیا الحق کے دور حکومت میں بھی اسرائیل کے لیے نرم گوشہ دکھائی دیا جس کا اظہار کنیڈا کے اخبار ٹورنٹو ٹائم نے اپنی ایک اشاعت میں کیا، اور سابق وزیر اطلاعات مشاہد سید نے اس وقت اس کی تصدیق بھی کی، اور آخری مرتبہ جنرل مشرف کے دور میں اس کے وزیر خارجہ کی حثیت سے میاں خورشید محمود قصوری نے بھی اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور سفارتی روابط استوار کرنے کی اپنے طور پر کوشش ضرور کی لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ اسرائیل سے روابط قائم کرنے کی کوششوں کی افواج پاکستان نے بحثیت ادارہ حمایت نہیں کی ،فوجی حکومتوں کے سربراہوں(جنرلوں) نے انفرادی سطح پرایسا کرنے کی خواہش ضرور کی۔ کیا کبھی پاکستان بھی اسرائیل سے سفارتی روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟ کیا کبھی پاکستانی مسلمان بھی قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی زیارت کا شرف حاصل کر پائیں گے ؟اس امر کا فیصلہ آئندہ کے عشرے میں ہوجائیگا۔
اسرائیل سے پہلے ہمیں بھارت سے تعلقات کا حتمی فیصلہ کرنا ہوگا، اگر بھارت عرب ممالک اور اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے وقت اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے تو ہمیں بھی بھارت سے تجارتی روابط کے لیے پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے افغانستان کا بارڈر بند کرنے کے ساتھ ہمیں بھارت کے ساتھ ہونے والی غیر قانونی تجارت کوبھی بند کرنا چاہیے، ملک کے اندر فروخت ہونے والی تمام اشیا کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا لازمی امر ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn