Qalamkar Website Header Image

خواتین کا عالمی دن ،سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کی شخصیت اور ہمارا میڈیا – انور عباس انور

اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر سال آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن ان چند مٹھی بھر خواتین کی جدوجہد کے اعتراف کے طور پر منسوب ہے جنہوں نے آج سے ایک صدی قبل اپنے حقوق کے حصول کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی، دس گھنٹے مشقت لینے کے اوقات آٹھ گھنٹے اور اجرت میں اضافہ کرنے کے لیے فیکٹری مالکان کے غیر منصفانہ طرز عمل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور کام بند کرکے نیویارک کی سڑکوں پر جلوس نکالے، جس پر انہیں پولیس کے لاٹھی چارج اور اس کے بدترین تشددکا نشانہ بننا پڑا،پولیس نے سرمایہ داروں کی آشیر باد سے سراپا احتجاج خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کربھی گھسیٹا۔صنف نازک قرار دیکر انہیں بنیادی حقوق سے محروم کرنے والے سر مایہ درانہ نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والے مردوں نے یہ سب کروایا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اس دن کومنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شہری خواتین کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیہی خواتین کو بھی بااختیار بنانے کی جدوجہد کی جائے۔اس دن کی دیگر غرض و غایت میں یہ بھی شامل ہے کہ بلا امتیاز دیہی اور شہری خواتین کو ان کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے اور انہیں ان کی معاشرتی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔انہیں معاشی ،اقتصادی ،سماجی اور سیاسی طور بھی مستحکم بنانے اور انہیں ووٹ کا حق دلانا بھی خواتین کے عالمی دن منانے کے مقاصد و منشور میں تحریرہے۔
نیویارک میں فیکٹری مالکان کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے وا لی بہادر خواتین کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ 1910 میں دنیا کے 17 ممالک کی سو کے قریب خواتین نے کوپن ہیگن میں منعقدہ کانفرنس میں شریک ہوکر نا صرف نیویارک میں صدائے احتجاج بلند کرنے والی خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ ان کی شروع کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ بھی کیاگیا۔
پہلی عالمگیر جنگ میں 20لاکھ کے قریب سویت یونین کے فوجیوں کی ہلاکت پر خواتین کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے بعد ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو خواتین کی طرف متوجہ کیا، لیکن 1956 میں سیاہ فام مزدوروں پر لگائی گئی پابندی کے خلاف جب 20 ہزار خواتین کے نیویارک میں مظاہروں سے متاثر ہوکر اقوام متحدہ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن سے منسوب کردیا، اس وقت سے یہ دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جا تاہے۔
اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خواتین کا عالمی دن مناتے مناتے اتنے سال گزر گئے ہیں لیکن دنیا کے ہر ملک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں آج بھی خواتین کو جنسی،سیاسی،معاشی اور سماجی سطح پر ہراساں کیا جا رہا ہے، پاکستان سمیت کئی ممالک میں آج بھی خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جارہاہے۔اس سب کے ذمہ دار وہ ادارے قرار دئیے جا سکتے ہیں ،جن کی یہ ذمہ داری ہے، لیکن حکومتی اور غیر حکومتی ادارے اور تنطیمیں کاغذی کارروائیاں ڈالتے ہیں اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی دھن میں مگن ہیں۔ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
پاکستان سمیت ترقی پذیر کئی ممالک میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری کرتی ہیں، لیکن بعض مقامات پر ان کی حکمرانی بھی قائم ہے لیکن مجموعی طور پر خواتین آج بھی جبرو زیادتی اور ظلم و ستم کا شکار رہتی ہیں، ان کی مرضی معلوم کیے بغیر ان کے نکاح عمررسید افراد سے کیے جانے کے واقعات معمول بن چکاہے ، نسلی امتیاز،مذہبی اور لسانی بنیادوں پر بھی خواتین تعصبات کا شکار ہو رہی ہیں، جنوبی ایشیائی ممالک میں قانون کی پاسداری کی بجائے انکی خلاف ورزی کرنے پر فخر و ناز کیا جاتا ہے اور قانون کے رکھوالے بھی چہرے دیکھ کر حرکت میں آتا ہے۔اس ھوالے سے اقوام میحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں اس جانب دھیان دیں۔
مسلم ممالک کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنی ترجیحات مرتب کرنی چاہئیں اس کے لیے ہمارے لیے خاندان نبوت کی خواتین کو رول ماڈل بنایا جا سکتا ہے، امہات المومنین ،جگر گوشہ رسول اکرمﷺ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگیاں ہمارے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں،ان کی پیروی کرکے اور ان کے ایام ولادت و شہادت کو عالمی سطح پر مناکر اپنی آنے والی نسلوں کی راہنمائی کی جا سکتی ہے،ان کی پاک و پاکیزہ زندگیاں مرد و زن کے حقوق کے تعین اور ان کی پاسداری سے عبارت دکھائی دیتی ہیں، ہمیں درس ملتا ہے کہ بچوں کے حقوق اور ان کے فرائض کیا ہیں،بحیثیت بیوی عورت کے کیا حقوق و فرائض ہیں اور شوہر کی کیا کیا ذمہ داریا ں ہیں۔
معاشروں میں سدھار اقوام متحدہ کے چارٹر مین حقوق درج کردینے سے حاصل نہیں ہوجاتے بلکہ ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہونا شرط اولین ہے جتنے حقوق خواتین کو دین اسلام نے عطا کیے ہیں اتنے مغربی ممالک دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اسلام کی تعلیمات کے خلاف بات کرنے کو ہم نے بطور فیشن اپنالیا ہے دین اسلام کو انسانوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے جو دین اسلام کی تعلیمات سے نابلد ہیں اور مغربی ذرائع ابلاغ اور کفر کی تبلیغ پر مامور غیر حکومتی تنظیمات کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہیں،یہ دین اسلام کے احکامات ہیں کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری اس کی ہتھیلی پر رکھ دی جائے، مزدوری کرنے والی چاہے خاتون ہو یا مرد اس میں کسی قسم کی تفریق موجود نہیں۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ابھی 3 جمادی الثانی گزرا ہے، پر یس کلب کی لائبریری میں دیکھ رہا تھا کہ آج جمعہ مبارک بھی ہے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا یوم وفات بھی ہے، اور چند روز بعد خواتین کا عالمی دن بھی قریب ہے ،کس کس اخبار نے شافعی محشر،پیغمبر مکرم نبی رحمت کی سب سے پیاری دختر نیک اختر کے حوالے اشاعت خاص کا اہتمام کیا ہے، مگر مجھے بہت افسوس اور رنج ہوا کہ پریس کلب کی لائبریری میں موجود اخبارا ت میں سے محض دو اخبارات نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن شائع کئے ،باقی اخبارات نے جمعہ مبارک اور دین اسلام کی نسبت سے مضامین شامل اشاعت کیے، ا اس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا نے تو شہر خموشاں کی صورت اختیار کئے رکھی جو ایک کرکٹ میچ کے لیے تو کئی گھنٹے مختص کر دیتا ہے مگر پیغمبر اکرم کی دختر اور جنت کی خواتین کی سردار کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے پاس وقت میسر نہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس