پاکستان کی سیاست میں آج کل بھونچال سا آیا ہواہے۔ عمران خان اپنے کھلاڑیوں کے ہمراہ دو نومبر کو ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور وہاں حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اور حکومت عمران خان کودو نومبر کو اسلام آباد کی بجائے کہیں اور بھیجنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اسلام آاباد کو ہر قیمت پر کھلا رکھنے کے لیے مشقیں کرتے دکھائے جا رہے ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ہمارے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی تو بڑا نقصان ہوگا۔عمران خان کا دعویٰ سچ ثابت ہوتا ہے یا حکومت اپنے مؤقف میں کامیاب و کامران ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت معین کرےگا لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت عمران خان کے پہلے دھرنے کے مقابلے میں کافی کمزور پچ پر کھڑی ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں جمہوریت یعنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں ۔ اس وقت سرل المیڈا والے حادثے کا ملبہ بھی حکومت پر نہیں پڑا تھا ۔
اب پیپلز پارٹی نون لیگ کی پشت پر کھڑی نہیں ہوگی۔ محمود اچکزئی کی شہرت کو بھی گہنا دیا گیا ہے۔ اسفند یار ولی کو بھی شکایات پیدا ہو چکی ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں (ماسوائے حکومت کی اتحادی جماعتوں)کو احساس ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت کا طرز عمل جمہوری نہیں بلکہ شہنشاہوں والا ہے۔ جس کے بارے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان انور ظہیر جمالی بھی ریمارکس دے چکے ہیں ہیں۔جن سے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کے پڑوسیوں سے تعلقات کیسے ہیں اس کا تذکرہ عالمی ذرائع ابلاغ بہتر طور پر بیان کر رہے ہیں۔دو نومبر کو اسلام آباد میں کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا اس حوالے سے سٹہ باز بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ عمران خان کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرادری کی جاب سے لانگ مارچ کی ’’ تڑی‘‘ کارگر ثابت ہو ئی ہے ۔ حکومت کے بڑوں نے دبئی میں زرداری صاحب سے رابطہ کیا ہے اور ان سے مشورہ بھی مانگا ہے لیکن زرداری صاحب نے حکومت کی حمایت کرنے کو بلاول کے پیش کردہ مطالبات کی منظوری مشروط کیا ہے۔ نواز حکومت دو نومبر سے شروع ہونے والی مشکل کی گھڑی میں زرداری صاحب یعنی پیپلز پارٹی کی حمایت کو اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے آکسیجن سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حکومت کے لوگ میڈیا میں جو کچھ مرضی کہتے پھریں لیکن اندر سے وہ خاصے پریشان ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ عمران خان کی پشت پر کچھ نادیدہ قوتیں موجود ہیں وہ سرل المیڈا کیس کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس امکان کو مسترد کردیا ہے کہ وہ مستعفی ہو کر جماعت کے کسی دوسرے راہنما کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھا دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے مخالفین کی جانب سے اسے حکومت کی کمزوری سے تعبیر کیا جائے گا۔ جس سے حکومت کو نقصان ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔ مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدارت کا منصب سنبھال لیں وزارت عظمیٰ پر اپنے کسی قریب عزیز چاہے وہ شہباز شریف ہی کیوں نہ ہوں کو سونپ دی جائے۔ مسلم لیگ نواز کے قریب ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا یہ آخری آپشن ہوگا۔
ان سطور کو دی اینڈ کی طرف لے جا رہا تھا کہ خبر آئی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بنچ نے پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے ضمن میں دائر درخواستوں کی سماعت کی اور وزیر اعظم کو جواب دینے کے ساتھ عدالت میں بھی طلب کر لینے کے احکامات بھی جاری کرتے ہوئے مذید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت عظمیٰ کے اس اقدام نے عمران خان،شیخ رشید احمداور جماعت اسلامی کی صفوں میں مسرت کی لہر دوڑا دی ہے۔ عمران خان اور دیگر راہنماؤں نے سپریم کورٹ کی اس کارروائی کے باوجود دونومبر کا احتجاج اور دھرنا ملتوی کرنے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی عدالت میں طلبی کے فیصلے کا بظاہر تو وزیر اعظم کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن ان کے دل اور دماغ میں کیا چل رہا ہے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں بھی وزیر اعظم نواز شریف پیش ہوئے تھے اور اس وقت بھی عدالت کے فیصلے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کی باتیں شائع کروائی گئیں لیکن جو کچھ عدالت میں ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے ہی خدشات اور تحفظات کا اظہار اب کی بار بھی کیا جا رہا ہے۔
کچھ عناصر ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو آرمی چیف جنرل راحیل کی ریٹائر منٹ سے بھی جوڑتے ہیں ان کا مؤقف ہے کہ جیسے جیسے ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جائے گی صورتحال پیچیدہ بنتی جائے گی اور جب ریٹائر منٹ کا معاملہ حل ہو جائے تو یہ عمران خان کا مسئلہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا یا پہنچا دیا جائے گا۔بہرحال دونومبر کو کچھ نہ کچھ ہوگا ضرور جس کیلیے اتنا وسیع سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ عمران خان اکیلا نہیں ہے اور نہ ہی اس کی پشت تھپکی سے خالی ہے ۔ حکومت کے ترجمان اور خیرخواہان بڑی انہونیاں چھوڑے جا رہے ہیں۔ عمران کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ یہ پشت پناہ ملکی ہیں یا ۔۔ خیر جان بہت پیاری ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرےگی۔ بس دعا کریں کہ اللہ پاک ہمارے وطن اور اس کے خیر خواہان کی خیر کرے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn