پولیو پروگرام آغاز سے اب تک!
انسدادِ پولیو پروگرام پاکستان میں باقائدہ طور پر سن 1994 میں شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے حالانکہ اس وقت میں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ وباء موجود تھی اور وہاں بھی اس کے خاتمے کی مہم جاری تھی، یہ ممالک اپنے مقررہ وقت میں اس مرض کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت بھی سبقت لے جانے والوں میں شامل تھا مگر 3 ممالک کی دوڑ تاحال جاری ہے جن میں پاکستان، افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں مگر آپ نائیجریا کو جلد اس فہرست سے برخاست پائیں گے کیونکہ وہاں پچھلے اکیس ماہ سے پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا لہٰذا ممکن ہے کہ اسی ماہ یعنی جولائی 2019 میں نائجیریا کو پولیو سے پاک ملک ہونے کی سند جاری ہوجائے البتہ اسی سال میں اب تک افغانستان میں 10 جبکہ پاکستان میں 37 پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ وسائل کے لحاظ سے پسماندہ ملک افغانستان میں کیسز کی شرع ہمارے ملک سے بھی کم ہے۔
میرا نام عاطف اور میں پاکستان میں انسدادِ پولیو پروگرام کی تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ ٹیم کا حصہ رہہ چکا ہوں، تقریباََ ساڑھے چار سال اس پروگرام کی مسلسل نگرانی کے نتیجے میں مَیں مختلف تجربات سے روشناس ہوا۔ آج کوشش کروں گا کہ اپنے قارئین کو مختصرََا اس حوالے سے آگہی دوں اور ساتھ ساتھ انسدادِ پولیو مہم کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات پر بھی بات کروں!
آخر کیوں پاکستان اس دوڑ میں سب سے پیچھے ہے؟
مشاہدے کی بنیاد پر میں ان چند وجوہات کو ہماری ناکامی کی بنیاد سمجھتا ہوں؛
(1) حد سے زیادہ منفی پروپگنڈہ
انسدادِ پولیو انسانی صحت کے حوالے سے پاکستان جتنا بڑا پروگرام ہے بدقسمتی سے اتنے ہی بڑے پروپگنڈے کا شکار ہے، زیادہ تر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اس منفی پروپگنڈے میں ایک مخصوص مذہبی سوچ کے حامل افراد کی کثرت زیادہ ہوتی ہے، ایک اخبار مسلسل اس حوالے سے منفی مقالے شایع کرتا رہا دوسری جانب مین اسٹریم میڈیا میں ایک نامور صحافی نے بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا، چونکہ ان سب کو پڑھنے اور سننے والے زیادہ تر ایک ہی فکر کےے حامل تھے لہٰذا ایسے افراد نے نہ صرف پولیو ورکرز کے کام میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی بلکہ 2012 سے اب تک پورے ملک میں 70 سے زائد ورکرز کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اسی ضمن میں آپ دیکھیں گے کہ حال ہی میں پشاور سے بھی ایک خبر اٹھی تھی کہ پولیو کی ویکسین پینے سے سینکڑوں بچوں کی حالت غیر ہوگئی بدقسمتی سے مین اسٹریم میڈیا میں بھی یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلی مگر بعد ازاں محکمے کے حرکت میں آنے اور تحقیقات ہونے پر جیسے ہی حقائق سے پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ ایک مقامی اسکول کے پرنسپال کے ایماء پر رچائے گئے ڈرامے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
المیہ یہ رہا کہ سوشل میڈیا پر اکثر صارفین نے مبنی بر پروپگنڈہ وڈیو کو تو آگے شیئر کیا مگر حقائق عیاں کرنے والی وڈیو بہت کم شیئر ہوئی اور اس طرح عوام میں ویکسین کے حوالے سے منفی تاثر باقی رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہم کے دوران ورکرز کو بے تحاشہ مشکلات پیش آئیں اور ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے تاآنکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پولیو مہم اپنے مقررہ اہداف پورے کیئے بغیر ہی روک دی گئی۔
(2) والدین کی عدم دلچسپی
ہمارے یہاں اکثر بچوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے اپنے والدین ہی ان کی صحت کے حوالے سے عدم دلچسپی کا شکار ہیں، مجھے یاد ہے کہ جب ہم ویکسینیشن اسٹیٹس معلوم کرنے کیلئے لوگوں کے دروازوں پر جاتے تھے تو اکثر لوگ یہ کہہ کر دروازے منہ پر پٹھک دیتے تھے کہ ہمارے یہاں بچے نہیں حالانکہ ورکر کی دروازے پر کی گئی مارکنگ سے یہ شواہد ملتے تھے کہ اس گھر میں بچے موجود ہیں۔ ایک مرتبہ ہم ایسے ہی ایک دروازے پر مسلسل بیس سے پچیس منٹوں تک کھڑے رہے، دروازہ بجاتے رہے، گھنٹی بجاتے رہے مگر اندر سے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں آرہا تھا اتنے میں اس بلڈنگ کا کچرہ اٹھانے والا آیا اور آتے ہی اس نے آواز لگائی تو دو منٹ کے اندر دروازہ کھلا اور اندر سے ایک خاتون ہاتھوں میں کوڑہ دان لیئے برآمد ہوئیں جو کچرے والے کے حوالے کرکے واپس ہونے لگیں تو ہمارے ساتھ ایک خاتون نے ان سے اپنا تعارف کروانا چاہا مگر انہوں نے بے توجہی سے دروازہ بند کردیا۔
اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ جو قوم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے اتنی لاپرواہ ہو کہ "صحت محافظ” کہلائے جانے والے پولیو ورکرز پر ایک کچرا اٹھانے والے کو بھی زیادہ دیں وہاں اس طرح کی مہم کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے۔(3) ناقص انتظامی امور
میں ناقص انتظامی امور کو موجودہ نظام کی خامیوں میں سب سے کمتر سمجھتا ہوں، یہ درست ہے کہ ماضی میں اس پروگرام پر مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی مگر فی زمانہ جس استعداد اور سنجیدگی کیساتھ ملک سے پولیو کے خاتمے پر کام ہو رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں، ملک میں صوبائی اور وفاقی سطح پر ایمرجنسی آپریشن سنٹرز قائم ہیں جن میں حکومتِ پاکستان کی نمائندگی کے علاوہ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف جیسے نامور ادارے بھی شامل ہیں جو ہر مہم کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور اسے کامیاب بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں اور یہ سب سلسلہ وفاقی سطح پر خود وزیرِ اعظم پاکستان کی چیئرمینشپ میں جاری ہے۔ ایسے علاقے جہاں ماحول میں پولیو کے وائرس موجود ہونے کے شواہد موجود ہیں مثلاََ کراچی اور پشاور وغیرہ وہاں مہم کے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر کمیونٹی بیسڈ ویکسینیشن CBV پروگرام متعارف کروایا جاچکا ہے لہٰذا اب یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پالیسی سازوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے نظام کو بہتر سے بہترین کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، مگر پھر بھی نچلی سطح پر بعض معاملات میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔
بطور ذمہ دار شہری اس بیماری کے خاتمے کیلئے ہمارا کیا کردار ہونا چاہئے؟
جیسا کہ یہ واضح ہے کہ پولیو وائرس اگر کسی بچے پر حملہ کرکے اسے معذور کردے تو اس کا کوئی علاج نہیں اور وہ بچہ اپنی بقیہ عمر اسی معذوری میں گزارنے پر مجبور ہوگا البتہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو وقتاََ فوقتََا اس بیماری سے بچاؤ کی ویکسین پلاتے رہیں تاکہ وہ اس وائرس کے حملے سے محفوظ رہہ سکیں۔ اس ضمن میں اگر کوئی وڈیو، آڈیو، بیان یا تحریر وغیرہ ہمیں پولیو ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات سے دوچار کرے تو ہم اپنے آپ پر تحقیق کے دروازے کھول دیں، آج کل کا دور جدید دور ہے ہم کسی بھی موضوع پر انٹرنیٹ پر تھوڑی دیر کی تحقیق سے حقائق تک پہنچ سکتے ہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ ہماری ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ اگر ہمارے عزیز و اقارب یا اڑوس پڑوس میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس مہم کے حوالے سے منفی پرپگنڈے کا شکار ہیں تو ہم انہیں بھی ان حقائق سے آگاہ کریں اور کوشش کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں کیوں کہ ایک بچے کے پیٹ میں موجود وائرس جب پاخانے کے ذریعے نالے میں جاتا ہے تو پورے محلے کے بچوں کے سر پر وائرس کے حملے کا خطرہ منڈلانا شروع کر دیتا ہے۔
عوام میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ اینٹی پولیو ویکسین کے دو قطرے کیا اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی قیمت کیا ہے، انہیں یہ حقیقت بتائی جانی چاہئے کہ یہ دو بوند کسی صحتمند بچے کو مستقل معذوری سے بچا سکتے ہیں، وطنِ عزیز کی عالمی برادری میں عزت افزائی بھی انہیں دو بوندوں سے ممکن ہے، یہی دو بوندیں ہیں جنہیں آپ کے بچوں کی امانت سمجھتے ہوئے اس مہم میں شامل تمام افراد برفیلے علاقوں، صحراؤں، سیلابوں اور بارشوں، گرمیوں اور سردیوں کی پرواہ کیئے بغیر آپ تک پہنچاتے ہیں اور یہی دو بوندیں ہیں جو آپ کے بچوں تک پہنچانے کی خاطر 70 سے زائد ورکر اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں۔
ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک صحتمند ماحول کی فراہمی یقینی بنائیں، ہماری تھوڑی سی دلچسپی اس ملک کو پولیو سے پاک بنانے میں بہت زیادہ معاون بن سکتی ہے لہٰذا کوشش کریں اپنے لیئے، پاکستان کیلئے!!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn