حکایت ہے کہ جب مجنوں کو صحرا بدر کردیا گیا تو لیلیٰ نے مجنوں کی مدد کی ٹھانی اور اپنے ایک معتمد کو دودھ سے بھرا ایک کٹورا دیا اور کہا کہ صحرا میں میرا مجنوں بھوکا پیاسا ھے جاؤ یہ دودھ اسے دے آؤ۔ راستے میں معتمد کو ایک ٹھگ مل گیا اس نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو؟ معتمد نے بتایا کہ وہ یہ دودھ مجنوں کے لیے لے کر جارہا ہے ۔ ٹھگ کو اسی وقت ایک ترکیب سوجھی اور دوڑ کر صحرا میں کچھ دور جا کر مجنوں کا بھیس بدل کر بیٹھ گیا۔ جب معتمد اس کے پاس سے گذرا تو جعلی مجنوں نے زور سے آواز دے کر کہا کہ یہ دودھ یقینا اس کی لیلی نے اس کے لیے بھیجا ہے ۔ معتمد بہت متاثر ہوا کہ مجنوں کو لیلی سے اتنا عشق ہے کہ اسے غیب کا عمل بھی ہوجاتا ہے ۔ معتمد نے جعلی مجنوں کو دودھ دیا اور واپس چلا گیا۔ اس طرح لیلیٰ مجنوں کو روز دودھ بھجواتی اور جعلی مجنوں راستے میں معتمد سے وہ دودھ لے کر پی لیتا۔ ایک روز لیلیٰ کے من میں آیا کہ مجنوں کی محبت کا امتحان لیا جائے اس نے اپنے معتمد سے کہا کہ آج جب مجنوں دودھ پی لے تو اس سے کہنا کہ لیلیٰ دیکھنا چاہتی کہ تم اس سے کتنی محبت کرتے ہو اس لیے اس خالی کٹورے کو اپنے خون سے بھر دو۔ جعلی مجنوں نے جب یہ سنا تو بہت سٹپٹایا اور معتمد سے کہا کہ میں تو دودھ پینے والا مجنوں ہوں خون دینے والا مجنوں صحرا میں کئی میل دور بیٹھا ہے۔ جاؤ اس سے جا کر کہو کہ لیلیٰ کو خون چاہیے وہ یقینا اس کٹورے کو اپنے خون سے بھردے گا۔ فیض کے دور میں پاکستان خون دینے والے مجنووں سے بھرا ہوا تھاجو لیلائے وطن سے ہمیشہ یہ پوچھتے رہتے کہ
"تجھے کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن”
سوشل میڈیا ایکٹوازم کے اس زمانے میں جب ٹویٹر پر ری ٹویٹس اور فیس بک پر سٹیٹس شیئر ہونے کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنا بڑا مجنوں ہے اور جب پاکستان کے فوجی جنرلز نے بھی اپنی مونچھ اتنی نیچی کر لی ہے کہ اب ان کی عزت نفس اس وقت تک متاثر نہیں ہوتی جب تک تنقید حاضر سروس جنرل کا نام لے کر نہ کی جائے۔ بلکہ اب تو انہیں ایک ایسا ریٹائرڈ جنرل بھی مل گیا ہے جس کو گالیاں دے کر کوئی بھی جعلی مجنوں اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اصلی مجنوں ختم ہو گئے ہیں۔
مگر ایسا نہیں ہے پاکستان کی سرزمین خون دینے والے مجنووں سے بھری پڑی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس کے باسیوں نے "واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا” ۔ اور
"تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی”
یہی وجہ ہے کہ آج بھی فوجی جنرل آواز خلق سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے ماضی میں تھے ۔آج بھی تیرہ سال کے نوجوان بلوچ سے لے کر ستر سال کے بوڑھے پروفیسر تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں شامل ہیں۔ مگر اس مضمون میں میں دودھ پینے والے مجنوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مجنوں صرف اس دور کی پیداوار ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے تاریک دور میں بھی ایسے مجنوں کم نہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے دودھ پینے والے مجنوں دو قسم ہوتے تھے ایک وہ جو اپنے اوپر پولیس کیس بنوا کر ملک سے بھاگ کر سیاسی پناہ لینے کے طالب ہوتے اس کے لیے اگر انہیں کسی تھانے میں چند کوڑے بھی کھانے پڑ جاتے تو اس سے نہ چوکتے، دوسری قسم وہ تھی جو مارشل لاء اتھارٹیز کی نظر میں آنا چاہتے تھے تاکہ ان کی قیمت زیادہ لگ سکے۔ تاہم موجودہ دور میں دودھ پنیے والے مجنوؤں کی اقسام بہت زیادہ ہے۔ آپ کو تیسرے درجے کے غنڈے بلیک میلر سے لے کر اعلی ترین درجے کے بظاہر انتہائی انٹلیکچوؤل فلاسفر تک ایسے ایسے نادر مجنوں ملیں گے کہ آپ کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ایسے بھی دھوکے باز موجود ہیں۔
1۔ جمہوری مجنوں: جنرل ضیاءالحق کے دور کی پیداوار موجودہ دور میں یہ مجنوں جمہوریت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی ان خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں جو جنرل ضیاءالحق کے دور میں ادھوری رہ گئیں تھیں ۔ نصرت جاوید، امتیاز عالم ، مرتضی سولنگی وغیرہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا دودھ صرف میاں نواز شریف کی بھینس دیتی ہے۔ اس لیے ان کا بنیادی مطمع نظر نواز شریف کی خوشنودی ہے۔ جنرل ضیاءالحق دور میں انہیں چبائی ہوئی ہڈیاں بھی نہیں ملتی تھیں۔ ان کے دن جنرل مشرف کے دور میں پھرے جب اس نے پرائیویٹ چینلز کو اجازت دی، پھر جب کیانی نام جنرل نے مشرف کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو یہ مجنوں جمہوریت پسندی کے بیج لگا کر سڑکوں پر عوام کے ساتھ شامل ہو گئے۔ آج بھی یہ لوگ مشرف دور میں لگی چند گھنٹوں کی پابندی کو اپنا سب سے بڑا تمغہ بتا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، ان کے بھونکنے پر جتنے گھنٹے پابندی لگی اتنے تو چینل عامر لیاقت کی وجہ بند رہ چکے ہیں۔
2۔ طالبانی مجنوں: یہ وہ مجنوں ہیں جو بنیادی طور پر فوجی جنرنیلز کے کاسہ لیس ہیں ۔ ان کو دودھ دینے والی بھینس سعودی عرب میں ہے ۔ طالبان اور دوسرے شدت پسندوں سے تعلقات کے سبب یہ مجنوں ہمیشہ سے خوش خوراک ہیں ۔ حامد میر، نجم سیٹھی، مظہر عباس ، نسیم زہرہ ان مجنوؤں میں شامل ہیں ۔ مشرف دور سے یہ مجنوں اکثر ریٹائرڈ جنرلز کو برا بھلا کہہ کر قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ جمہوری مجنوں کی طرح یہ بھی جمہوریت پسند ہیں البتہ یہ نوازشریف یا کسی اور لیلائے جمہوری کے عاشق نہیں ہیں۔
3۔ سوشل میڈیا کے مجنوں: دودھ پینے والے مجنوؤں کا یہ گروپ جدید دور کی پیداوار ہے ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سوشل میڈیا پر وجود میں آنے والا یہ گروپ شہرت کا دلدادہ ہے۔ ان میں سے بہت سے جوان مجنوں دودھ کی تلاش میں آئے تھے اور انہیں پتہ چلا کہ سب سے زیادہ اور جلدی دودھ دینے والی بھینس میڈیا ہے۔ ان میں سے اکثر ٹی وی چینلز پر جمہوری اور طالبانی مجنووں کے قدموں میں بیٹھ کر زیادہ دودھ پینے کا طریقہ پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کا دودھ کہاں سے آتا ہے۔ کوئی شریفوں کی بھینس کی منتیں کررہا ہوتا ہے تو کوئی طالبان کی گود میں بیٹھ کر فیڈر مانگ رہا ہوتا ہے کسی کو جی ایچ کیو کی بھینس سے امیدیں ہیں تو کوئی ملک ریاض کی بھینس سے دودھ مانگ رہا ہوتا ہے۔ ماروی سرمد، گل بخاری، رضارومی، علی ارقم، جبران ناصر اور ایسے بہت سے مجنوں دودھ کی تلاش میں در در بھٹکے اور جہاں دودھ ملا وہیں بیٹھ گیے۔
4۔ بدمعاش مجنوں: یہ گینگسٹر دراصل بلیک میلنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں البتہ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ دودھ کی تلاش میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے صحرا میں بھٹک رہے ہیں۔ اس بلیک میلنگ میں کبھی ان کے سر مونڈے گئے تو کبھی فوجیوں نے ان سے زیادتی کی، اور کبھی گلی کے غنڈوں نے انہیں کمبل کٹ لگائی اور یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ مار کر دودھ دوہنے لگ گئے۔ ان کی بھینس زیادہ تر میڈیا چینلز کے مالک، اسمگلرز اور مذہبی شدت پسندوں کے پاس بندھی ہوتی ہے۔عمرچیمہ، احمد نورانی ، انصار عباسی ، جاوید چوہدری وغیرہ اس گروپ کے بنیادی ممبر ہیں۔
5۔ منے مجنوں: یہ چھوٹے چھوٹے مجنوں ، دولے شاہ کے چوہوں کی طرح سوشل میڈیا پر باؤلے ہوئے پھرتے ہیں۔ ان کو دودھ نہیں بلکہ گو کی تلاش ہوتی ہے ۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے چکر میں یہ چوہے بعض اوقات پاوں تلے بھی آ جاتے ہیں پھر انہیں نجم سیٹھی ، انصارعباسی جیسے لوگوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ اویس گورایہ ، اور ایسے بہت سے منے مجنوں پاکستان اور پاکستان سے باہر اچھل اچھل کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرہ مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگلے مضمون میں میں ان خون دینے والے مجنوؤں کا ذکر کروں گا جو آج بھی تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں اور جن کے شہید جسم آج بھی سلامت اٹھائے جاتے ہیں۔
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر کوئی صاحب /صاحبہ اس مضمون کا جواب دینا چاہيں تو ہم اسے بخوشی شائع کریں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn