Qalamkar Website Header Image

یہ سب ہزارہ مر کیوں نہیں جاتے؟

پاکستان کے رقبے اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے دارلحکومت میں گزشتہ دس برس میں مختلف واقعات میں سینکڑوں کی تعداد میں ہزارہ شیعہ مسلمان مارے جارہے ہی۔پاکستان کے کسی علاقے میں اس تواتر سے اتنے مسلسل انداز میں شاید کسی طبقے کی نسل کشی کی گئی ہو، جس طرح سے ان ہزارہ شیعہ  کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ہزارہ قبائل اس وقت شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں سے بے گناہ کا جنازہ نہ اٹھا ہو، سینکڑوں بچے یتیم ہو چکے ہیں اور کئی مائیں اپنے جگر گوشوں کو کھو چکی ہیں، گھر گھر صف ماتم بچھی ہے، کوئی درد بانٹنے والا ہے نہ کوئی آنسو پونچھنے والا، قتل و غارت گری کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کو نہیں آتا۔ ان نامساعد حالات کے باوجود ہزارہ قبائل کے صبر اور وطن سے محبت کے جذبے کو سلام پیش نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ تاہم اب بھی اگر حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ہزارہ قبائل کی قتل و غارت گری کو روکنے کیلئے اقدامات نہ کئے تو شائد ہر باشعور اور محب وطن شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں کہ بے گناہ شہریوں کی اس قتل و غارت کی ذمہ دار مقتدر قوتیں ہیں۔

حالیہ واقعہ کوئٹہ کے علاقہ ہزار گنجی میں خود کش حملہ جمعے کو اس وقت پیش آیا تھا جب ہزارہ قبیلے کے پھل اور سبزی فروش وہاں خریداری کے لیے گئے تھے۔ اس واقعہ میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اب تک آنے والی اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں نہ صرف ہزارہ شیعہ کمیونٹی سراپا احتجاج ہیں،بلکہ شہر میں رہنے والا ہر فرد شدید رنج و غم کی کیفیت میں ہے۔پاکستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ پاکستان میں کل ہزارہ آبادی نو سے دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں ،تیرہویں صدی میں چنگیز خان کے افغان حملے کے بعد اس کے لشکر کے کچھ لوگ وہیں رہ گئے۔ ہزارہ انہی منگول فوجیوں کی اولادوں میں سے ہیں۔ افغانستان کے پشتون امرا نے ہزارہ آبادی کو افغانی کبھی تسلیم نہ کیا اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھا۔ اس عصبیت کے جواب میں 1888میں ہزارہ آبادی نے بغاوت کردی۔ 1891میں افغانستان کے پشتون حکمران امیر عبدالرحمن نے بغاوت کو کچلنے کے بعد فوجوں کو حکم دیا کہ مرکزی افغانستان کے تمام علاقوں میں موجود شیعہ ہزارہ کو قتل کر دیا جائے۔ تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اس حملے میں آدھی ہزارہ آبادی قتل ہوئی یا جلاوطنی پر مجبور کر دی گئی۔ معروف ماہر بشریات (انتھراپولوجسٹ)تھامس برفیلڈ اپنی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ انیسویں صدی تک ہزارہ آبادی کی حالت یہ تھی کہ انہیں غلاموں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ اسی دور میں بہت سے ہزارہ خاندانوں نے بھاگ کر موجودہ پاکستان کےعلاقے بلوچستان اور ایرانی صوبے خراسان میں پناہ لے لی۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستانی تماشائیوں سے غنڈہ گردی

افغانستان میں طالبان دور میں ہزارہ آبادی پر ظلم و ستم ہوئے تو اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے وہاں سے ہجرت کرکے بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں پناہ لی۔ 2004 میں افغانستان پر صدر حامد کرزائی کی حکومت قائم ہوئی تو امتیازی رویوں میں کچھ کمی آئی۔ اور سیاسی میدان میں بھی ہزارہ آبادی کو حصہ ملا۔ تاہم اب بھی ہزارہ آبادی کو افغانستان میں امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔

برصغیر پر حکمران انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران صوبہ بلوچستان کی ہزارہ آبادی کو فوج میں بھرتی کرنے کا آغاز کیا۔ اس سے ان کے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ اسی دور میں بھرتی کیے گئے کچھ فوجیوں نے بہت ترقی کی۔ انہی میں سے ایک نام ہے جنرل محمد موسیٰ کا۔ یہ وہی جنرل موسیٰ ہیں جنہوں نے پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی افواج کی قیادت کی تھی۔

کوئٹہ کی بات کی جائے تو یہاں آباد ہزارہ قبائل کی اکثریت کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے، تاہم شرح خواندگی کے اعتبار سے ہزارہ نوجوان نسل بہت آگے ہے، مذہب سے والہانہ وابستگی اور ذہانت میں ہزارہ قبائل کسی سے کم نہیں، ہزارہ قبائل چونکہ اپنی شکل و صورت کی وجہ سے آسانی سے پہچانے جاتے ہیں، اس وجہ سے دشمن کیلئے انہیں نشانہ بنانا مشکل نہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی اکثر وارداتیں ایسے مقامات پر ہوئیں جہاں سیکورٹی چیک پوسٹیں یا پولیس تھانے قریب تھے، تاہم پھر بھی دہشت گرد آسانی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ برس بھی جب اسی طرح قتل غارت گری ہوئی تھی تو مقامی افراد نے بھوک ہڑتال اور شدید احتجاج کیا تھا جس کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے فی الفور کاروائی کی جائے گی۔

آج ہم پھر سے ہم وہی منظر دیکھ رہے ہیں کہ اسی طرح سے لوگ دھرنے دے رہے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی پر طویل خاموشی طاری رہی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس طرح آوازیں نہیں اٹھ رہی ہیں جس طرح بلند کی جانی چاہیئے۔

یہ بھی پڑھئے:  اختلاف معاشرت کا حسن اور موجودہ مذہبی منافرت

پاکستان کے عوام نے کچھ عرصہ پہلے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہونے والی قتل و غارت پر وہاں کی حکومت اور عوام کا رد عمل دیکھا ہے۔نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میں پچاس مسلمانوں کا قتل ساری دنیا میں نیوزی لینڈ کی سخت بدنامی کا سبب بن گیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس حوالے سے بہت دکھی ہوئی اور ہر ممکنہ طریقے سے مسلمانوں کی دلجوئی میں لگی رہیں۔ وزیر اعظم نیوزی لینڈ نےاس حوالے سے روایتی معذرت سے بہت آگے جاکر کرہ ارض کے احمقانہ تقسیم کے شکار لوگوں کو دلاسا دینے کے علاوہ انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے جذبات اجاگر کرنے کے لیے ایک سمجھ میں آنے والا فلسفہ بھی پیش کیا

ـ "کہ دنیا بھر کے انسان آدم کی اولاد اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں”

اس حقیقت پسندانہ فلسفے کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فلسفے سے منطقی طور پر مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔

کیا پاکستان میں ہماری تمام سیاسی قیادت اور حکومت ایسا عزم اور حوصلہ رکھتی ہے،کہ فرقہ ورانہ او رنسلی بنیاد پر نسل کشی کا شکار بننے والی ہزارہ کمیونٹی کے زخموں پر مرہم رکھ سکے؟

سب زیادہ ذمہ داری برسراقتدار اور صاحب اختیار افراد اور اداروں کی ہوتی ہے کہ اپنے عوام کہ احساس عدم تحفظ کو فرو کریں ، اس کے لئے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو بے حسی کے سنگھاسن سے اتر کر احساس اور مروت کی مسند بچھانا ہوگی ۔

وزیر اعظم عمران خان کے لئے یہی لمحہ ہے کہ وہ بیان بازی اور ٹویٹ کرنے کے بجائے بذات خود کوئٹہ میں پہنچیں اور اپنے عوام کے دکھ میں ان کے آنسو پونچھیں۔۔۔۔۔ نہیں تو یہ یا د رکھیں ۔۔۔۔ لوگ تو شاید کچھ عرصہ بعد بھول جائیں ۔۔۔ مگر تاریخ کبھی نہ بھولتی ہے اور نہ معاف کرتی ہے اس لئے محتر وزیراعظم صاحب آپ اور ساتھ ساتھ عوام کے حقوق کے کسٹوڈین ادارے اور حکمران کہہ دیں کہ

"ہزارہ کمیونٹی ہم آپ کا تحفظ نہیں کرسکتے! بہتر ہے کہ آپ مرجائیں”

حالیہ بلاگ پوسٹس