میں پچھلے دو دن سے عاصمہ جہانگیر کی گفتگو والی ویڈیوز دیکھ رہی ہوں۔ میں نے کہیں ان کو مشرقی روایات سے الگ لباس پہنے نہیں دیکھا، کہیں ان کو دوپٹے کے بغیر عوام کے درمیان نہیں پایا، ملک کی بعض سرٹیفائیڈ ہیومن رائٹس مسلمان ایکٹیوسٹس کی طرح بلا آستین بغیر ڈوپٹے بیٹھ کر چلا چلا اور ہاتھ نچا نچا کر بے وزن گفتگو کرتے نہیں سنا، کہیں ان کو ناشائستہ زبان میں گفتگو کرتے نہیں پایا۔
ملک کے مستند مسلمان دانشوروں کی طرح اردو میں انگریزی کے ٹانکے لگاتے نہیں سنا۔ ان کی بات میں دلیل کی کمی نظر نہیں آئی میں سمجھ نہیں پائی کہ ان کی ذات پر مذہب اور روایات سے بغاوت کے لیبل لگا کر ان کو انسانی خدمات سے ڈس کریڈٹ کرنے کی کوششیں کرنے والے کیا چاہتے ہیں۔
مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ انسانیت مذہب کی حدود میں محدود ہوتی تو مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں انسان دوستی کا سہرا کسی دوسرے کے سر پر نہیں باندھا جا سکتا۔ ابھی گذشتہ سال ہی ہمارے ہاں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ان کی انسان دوست خدمات کے اعتراف میں جس عزت و احترام کے لائق سمجھا گیا عاصمہ کو اس سے محروم کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ یقین جانئیے عاصمہ جہانگیر اب ہمارے اس اعتراف سے ماورا ہو چکیں.
ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو چکا۔
لیکن ان کے بعد بچنے والی دنیا کے باسی ہم زندہ لوگ ان کی موت پر گدھوں کی طرح پنجے گاڑھ کر نہ دین نہ ہی ریاست کی کوئی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ہماری آخرت سنوارنے کے کام بھی نہیں آنے والا۔ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ایک دن مرنا ہم سب نے بھی ہے۔ کون جانے کس کے مرنے کے بعد کس کی لاش ہوتی ہے اور کون گدھ بنتا ہے۔ اللہ سوچنے اور یاد رکھنے کی توفیق ہر کسی کو عطا فرمائے۔
نوٹ: یہ تحریر صرف اپنے محسوسات کے اظہار کے لیے ہے اس پر مخصوص فیس بکی بحث ہر گز درکار نہیں ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn