عمران خان کی ٹکٹوں کی تقسیم قابلِ اعتراض ہو سکتی ہے۔ پارٹی میں شامل ہونے والوں پر اعتراضات جائز ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے ن لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی، متحدہ مجلسِ عمل، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، وغیرہ سب موجود تھیں۔۔۔
نہ کبھی کسی پارٹی بدلنے والے پر اعتراض ہوا، نہ کسی نے نواز شریف کو جدہ بھیجنے والے کی کابینہ میں رہنے والوں کو نواز شریف کا دایاں بازوں بننے پر اعتراض ہوا، نہ کبھی ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی لیڈر کے فیصلے پر احتجاج ہوا۔ نہ کبھی امیدواروں سے حلقوں میں سوالات کیے گئے۔ نہ کبھی پارٹی امیدواروں کا استقبال اس طرح ہوا کہ انہیں الیکشن مہم میں جیت سے زیادہ عزت بچانے کی فکر، نہ کبھی ایسا ہوا کہ دو بڑی قومی پارٹیوں کو امیدوار تلاش کرنے پڑے۔
عمران خان وزیراعظم بنے یا نہ بنے۔ لیکن جو شعور وہ اس قوم میں جگا گیا۔ اس کے بعد سیاسی پارٹیاں مذہبی ہوں یا غیر مذہبی. ان کے پاس عمران کی ذات، بیوی، اور اس کی پارٹی میں کیے گئے فیصلوں کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں ہے بات کرنے کو۔
گو کہ قوم کو کچھ وقت لگے گا مگر زیادہ نہیں، جب وہ مذہبی لبادوں والے ہوں یا سیکولریا شعور بیدار کرنے والا عمران خان۔ جس سے اس کے وعدوں، کارگردگی اور خرابیوں پر سوالات عام آدمی ہر جگہ کرے گا.اس کے بعد ہی اس قوم سے وہ لیڈر نکلے گا۔ جس کا یہ قوم ملک اس کے وسائل معدنیات خزانے اور ایٹمی فوج ۔ کو انتظار ہے.
ہجرت کرنے والے دس لاکھ شہداء، لاکھوں خواتین کی عصمتیں. جس ملک کی بنیادوں میں ہیں۔ بزرگوں کی پیشنگوئیوں کے مطابق اس ملک کے عالمی عروج کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ ان شاءاللہ لٹیروں کا زوال اس ملک کے عروج کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn