Qalamkar Website Header Image

اور قندیل بجھ گئی۔۔۔

abdul razaqخالق کائنات نے انواع و اقسام کے حشرات الارض تخلیق کئے ہیں جو اس کی کاری گری اور حکمت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔لیکن غیرت نامی کیڑا مردوں کی ایجاد ہے جو انسان کے دماغ میں بڑی خاموشی سے گھسایا جاتا ہے اور خاندانی روایات کے زیر اثر پروان چڑھایا جاتا ہے۔یوں تو یہ کیڑا ہرقت انسانی دماغ میں کلبلاتارہتا ہے۔مگر مہلک تب ثابت ہوتا ہے جب بات ماں بہن یا بیٹی سے متعلق ہو۔زیادہ تر تو مردانگی کو للکارنے کے لئے بہن کی گالی کا ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر بیوی اور ماں بھی دشنام طرازیوں کے فن کا جزو لازم تصور کی جاتی ہیں۔غصے کا اظہا ر گالی دے کر کرنا تو ہمارے معاشرے کی بڑی عام سی روایت ہے لیکن سخت حیرت ہوتی جب دوست محفل میں بیٹھ کر اپنے پیار کی انتہاء گالیوں کی صورت میں کرتے ہیں۔اور فوارے کی طرح منہ سے گالیوں کی جو بوچھاڑکی جاتی ہے اس کا مرکز بھی ماں یا بہن کی ذات ہی ہوتی ہے۔
یہ بے چاری بے بس عورت کہیں مردوں کی فحش گفتگو کا موضوع بنتی ہے توکہیں دل لبھانے کا اور کہیں رات کی تاریکی میں منہ کالا کرنے کا۔تاریخ شاہد ہے کہ کمزور حکمران جب بھی طاقتور راجوں،مہاراجوں سے صلح کی درخواست کرتے تھے توبدلے میں زرو جواہرات کے ساتھ خوبصورت عورتوں کو باندی کے طور پر لازمی پیش کیا کرتے تھے تاکہ وہ ارباب بست و کشاد کے دل بہلانے کا سامان کریں اور ہارے ہوئے حکمرانوں کی گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو۔نادر شاہ افغانی جب بر صغیر پر حملہ آور ہوا تو اس وقت کے عیاش راجاؤں نے کروڑوں روپے تاوان کی ادائیگی کے ساتھ جان بخشی کروانے کیے لیئے ایک مغل شہزادی کا رشتہ بھی پیش کیا۔بعد ازاں احمد شاہ ابدالی کے حملے کی صورت میں ایک اور مغل شہزادی انہی روایات کی بھینٹ چڑھ گئی۔بادشاہت ،حکمرانی اور عورت کے اس رشتے کے پس منظر کو جانچنے کیلئے اگر مزید قدیم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قدیم مصری حکمران قحط سالی کی صورت میں دریائے نیل کو زیوروں سے آراستہ کی گئی ایک خوبروعورت کی بھینٹ دیا کرتے تھے تا کہ دریا رواں ہو اور قحط سالی کا خاتمہ ہو سکے ۔اور کہیں یہی بے چاری مظلوم عور ت داسی کی صورت میں پنڈتوں اور پجاریوں کا دل بہلانے کے لیئے رکھی جاتی تھی تو کہیں راہبہ کی صورت میں پادریوں کی جنسی لذتوں کا سامان بننے کے لئے۔تخلیق کائنات جسے شریک حیات، زوجہ یا بیگم جیسے نام دیے جاتے ہیں جو عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے اور بہن جیسا مقدس رشتہ جسے ہمشیرہ یا سسٹر کہہ کر بلایا جاتا تھا اس بے حس معاشرے نے اس کے لئے طوائف،رنڈی ،چھنال،بازارو،گشتی،کال گرل اور نجانے کون کون سے نام تخلیق کر ڈالے۔کہیں بے چاری کو کاری کر کے خاندانی عداوتوں کی بھینٹ چڑھایا گیا تو کہیں زمینوں اور جائیدادوں کے چکر میں جیتے جی ونی کر دیا گیا۔شاید پسماندہ معاشروں میں بیٹی کو پال پوس کے اسی لئے جوان کیا جاتا ہے کہ مشکل وقت پڑنے پر اس کو دیت کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔مگر جب کوئی بغاوت بلند ہو یا صدائے احتجاج جنم لے تو پھر انائیں غیرت کو للکارتی ہیں۔غیرت کے نام پر مردوں کی پنچایت نہ صرف عورت کےْ قتل کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ قاتل کو پورا پورا تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔ظاہری بات ہے کہ جب عورت کو مال غنیمت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے،اسکی خوبصورتی یا بد صورتی کو بنیا د بنا کر کھلے بندوں منڈی میں اس کی بولی لگائی جا سکتی ہے تو اس کو قتل کرنے میں کون سے اخلاقی تقاضے مانع ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے وسائل پر ایک عام عورت کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مریم نواز اور بختاور بھٹو کا ،اس کی بھی رائے کو بھی اتنی ہی اہمیت ملنا چاہئے جتنا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوئی ان کے حقوق کی علمبردار خواتین کو ملتی ہے مگر یہ ایک دوغلا معاشرہ ہے جہاں صرف برابری کے حقوق دلانے کا خواب انتخابی نعروں کے سوا شاید کچھ بھی نہیں۔
ڈیرہ غازی خان کی قندیل بلوچ بھی معاشرے کی اسی بے حس سو چ کی نظر ہو گئی ۔وہ نادان یہ سمجھی تھی کہ بغاوت کی آواز بلند کر کے وہ معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑڈالے گی مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہاں جرم ضعیفی کی سزا صرف موت ہے۔مردوں کے تخلیق کردہ اس معاشرے میں تمام مظالم کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا ہی عورت کی زندگی کی ضمانت ہے۔سرور کونینﷺ نے جس بیٹی کوزندہ درگورکرنا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا اورسیدہ فاطمہؑ کی توقیر یہ کہہ کر بلند کی تھی کی تھی کو وہ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اسی نبیﷺ کی تعلیمات کا ہم نے انتہائی غلط استعمال کیا۔کبھی بہن ،بیٹی کو مذہب کے نام پر قتل کیا تو کبھی غیرت کے نام پہ۔فوزیہ عظیم جیسی ہزاروں قندیلیں آج ہم سے یہ سوال کرتی ہیں کہ آخر کب تک غیرت کے نام پر یہ قتل کا سلسلہ جاری رہے گا اور کب تک بے حس مر د اپنے ہاتھوں سے قندیلیں بجھا کے انکی یاد میں قندیلیں جلاتے رہیں گے۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس