ھم اس معاشرے کے باشندے ہیں، جہاں خواجہ سراؤں کے حقوق تو دور کی بات، انہیں کوئی انسان تصور کرنے کو تیار نہیں۔ جس معاشرے کے اقدار اتنے بھیانک روایات پر مبنی ہو، جہاں ایک انسان تھوڑی سے منطقی سوچ کا مالک ہو، تو نتیجہ خرم زکی اور سبین محمود سے جیسا ہوتاہے، تو وہاں علیشہ جیسے لوگ کیسے جئیں گے۔ لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے میں بقا کی جنگ خواجہ سراؤں سے اچھا کوئی اور نہیں لڑسکتا۔ یہ ایسے لوگ ہیں، جنہیں صرف گھر میں لعن طعن نہیں کیا جاتا، بلکہ گھر سے باھر کوئی بھی جگہ ہو جہاں بطور انسان ان کو واسطہ پڑتا ہے آفس، تھانہ، ڈاکخانہ،
ہسپتال، پاسپورٹ اور نادرا کے آفس میں بھی برے برے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ تو چھوڑ دیجیئےے سڑک کے چوراہے پہ، جب وہ سوال کرتی رہتی ہیں، تو یہ حواس باختہ معاشرہ انہیں وہاں بھی نہیں چھوڑتا۔
دو دن پہلے فیس بک پہ خبر پڑھی کہ علیشہ جو کہ ٹرانس ایکشن الائینس خیبر پختونخواہ کی ڈسٹرکٹ کوارڈینیٹر تھی، کو کسی نے آٹھ گولیاں مار کر شدید زخمی
کیا۔ یہ خبر میرے لیے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھی۔ اس سے زیادہ اداسی کی بات تو یہ تھی، کہ بیچاری علیشہ جو خون سے لت پت تھی، کو ہسپتال میں اسکی سوشل سٹیٹس کی بنیاد پہ بیڈ اور وراڈ نہیں الاٹ ہورہا تھا، جو ایک وجہ مرگ ہوسکتی ہے۔ تین گھنٹوں کے مسلسل کوشش کے بعد جاکے ایک پرایئویٹ کمرہ ملا، تب تک علیشہ کا خون بہت ضائع چکا تھا۔ علیشہ کے کچھ خواجہ سرا دوست جو سرپرست اور مدد کیلے آئے تھے، ہسپتال کا عملہ انہیں ھراسمنٹ کا نشانہ بناتا رہا۔ انسانی اور اسلامی اقدار کے علمبردار ایک خون میں لتھڑے ہوئے انسان کی موجودگی میں اپنی ہوس کے پجاری بنے لواحقین خواجہ سراوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے۔ اگلی صبح علیشہ مرگئئ۔
علیشہ کی فیملی افغانستان سے ہجرت کرکے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں مقیم ہو گئی تھی۔ یہ تب کی بات ہےجب سوویت یونین نے افغانستان پہ حملہ کیا تھا، اور بہت سارے مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی گئی تھی۔ کچھ ملک بدری، کچھ غربت اور کچھ سماجی ناآگہی کی وجہ سے علیشہ کی فیملی کو بہت سارے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ علیشہ کی پیدائش اور پرورش سہراب گوٹھ کراچی کی ہے..اردو کی روانگی کے خوب صورت نقوش اور دراز قد علیشہ کو دوسرے خواجہ سراؤں سے نمایاں رکھتا تھا۔
غربت کے باعث علیشہ کو سکول بھیجنے کی بجائے درزی کا کام سکھانے کے لیے ایک ٹیلر ماسٹر کے پاس بھیجا گیا جس نے علی شاہ کو علیشہ بننے پر اکسایا اک گورو نے علیشہ کو رقص کے داؤ پیچ سکھائے اور یوں علیشہ شادیوں میں ناچ ناچ کے پیسہ کمانے لگی جب علیشہ کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے علیشہ کو علی شاہ بنانے کیلیے سو جتن کر دیکھے مگر علیشہ کو علی شاہ بننا گوارہ نہیں تھا وہ کراچی چھوڑ کے پشاور چلی آئی خواجہ سراؤں سے متعلق اک این جی او میں وہ کوارڈینیٹر کے عہدے پر فائز تھی اس کے خاندان کے دن پھر چکے تھے وہ اپنے آبائی وطن افغانستان شفٹ ہو چکے تھے اس کے دو بھائی جرمنی میں سیٹل تھے
اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں نجی دوستوں میں وہ بارہا اس کا اظہار بھی کر چکی تھی
مستقبل قریب میں اس کا افغانستان لوٹ جانے کا ارادہ تھا
پاکستان میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کی آوازوں کا مقابلہ ان کی آواز ہمیشہ کیلیے بند کر کے ہوتا ہے علیشہ کو بھی آٹھ گولیاں مار کر خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے اک بلند آواز کو ہمیشہ کیلیے خاموش کر دیا گیا
علیشہ مر کر بھی اس نام نہاد مہذب معاشرے کے چہرے کا نقاب نوچ گئی جن کا مہذب پن اک مرتے ہوئے انسان کے لواحقین سے دست درازی کرتے وقت بھی قائم رہتا ہے


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn