مارک زکر برگ کی بدولت، "قلم کار” جیسی اپنی مثال آپ، دوستوں کے ساتھ مشترکہ ویب سائیٹ بنا کر اپنے سینے پر "بانی” کا تمغہ سجانے والے ہمارے پیارے دوست ملک قمر عباس نے حاتم طائی کی قبر پر دونوں لاتیں ایک ساتھ مارنے کا فیصلہ کیا اور مجھ غریب سمیت دنیاءِ ادب کی معروف و مصروف ہستی، تقریبا کوئی پونے دو دلوں کی دھڑکن، ہر دلعزیز شخصیت(یہ الگ بات ہے کہ اُنہیں اپنے محلے میں کوئی نہیں جانتا) ، انتھک انسان ،(انتھک اس لئے کہ ، سارا دن کوئی کام نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری ٹانگ پر مسلسل رکھنے کے باوجود نہیں تھکتے)، جی ہاں آپ لوگ ٹھیک سمجھے میرے ساتھ اس عظیم الشان افطار پارٹی پر دوسری شخصیت ملک قمر صاحب خود تھے۔
افطار کے لیئے انواع و اقسام کے کھانے دیکھے تو بے ساختہ ملک صاحب سے پوچھ بیٹھا "یار ملک، لگتا ہے تیری اپنے گھر میں واوا عزت ہے”؟ بے چارگی سے بولے "نہیں شاہ جی، یہ سب کچھ تو کوٹ ادو والے کنگلے رضوان گورمانی اپنے زکوٰۃ میںاکٹھے ہوئے پیسوں،کسی نہ کام کے صدیف گیلانی ، ملتان سے انتہائی ویلی ڈاکٹر زری اشرف اور راولپنڈی سے بے وزن شاعرہ سحر بخاری نے پیسے اکٹھے کر کے میری مدد کی ہے ورنہ میری اتنی قسمت کہاں” ملک صاحب کی شکل دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ ملک صاحب کے کندھے پر ڈرتے ڈرتے ہاتھ رکھا(اس سے پچھلی ملاقات میں زرا بے تکلفی کا مظاہرہ کیا تھا تو ملک صاحب کو پانچ دن آئی سی یو میں گزارنے پڑے تھے ) اور پوچھا "ملک یار ، کیا بات ہے ، اتنے غم زدہ کیوں ہو؟” ملک تو شاید پیار کے دو بولوں کو ترسا ہوا تھا کہ اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا اور بولا "شاہ جی ! آج آٹھ دن ہو گئے ہیں میرا شناختی کارڈ گم ہوئے ، اور میں آٹھ دن سے سحری اور افطاری باہر سے کر رہا ہوں” اب حیران ہونے کی باری میری تھی، میں نے پوچھا "یار ملک ! شناختی کارڈ گم ہونے کا باہر کی سحری اور افطاری سے کیا تعلق ہے؟” بولا، شاہ جی شناختی کارڈ دکھائے بغیر گھر والے کھانا جو نہی دیتے۔۔۔ تو میں نے کہا "کیا تمھارے گھر والے تمہیں شکل سے نہی پہچانتے؟” ملک بولا "شاہ جی شکل کا ہی کوئی مسئلہ ہے” میں نے پوچھا کیسے؟ ملک بولا "کوئی نہ کوئی ٹیکنیکل فالٹ تو ضرور ہے کہ مہینوں کی محنت کے بعد کوئی گرل فرینڈ بنانے میں کامیاب ہوتا ہوں، توپہلی ملاقات کے ٹھیک 15 منٹ بعد بھائی بول دیتی ہے اور جاتے ہوئے ویگن کا کرایہ بھی میری جیب میں ڈال جاتی ہے”۔۔ اس بات سے پہلے تک میں یہی سمجھتا تھا کہ دنیا کا مظلوم ترین انسان میں ہوں لیکن، میرا یار ملک ایک بار پھر سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔
دلاسے اور تسلیاں ابھی تک چل ہی رہے تھے کہ اعلانِ افطار ہو گیا اور میں نے صرف یہ سوچتے ہوئے جلدی سے چار پانچ عجوہ کھجوریں اکٹھی منہ میں ڈالیں کہ کہیں یہ سارا کچھ ملک کا کوئی بھائی اٹھا کر نہ لے جائے۔
اور یہیں سے ختم نہ ہونے والی مشکلات کی سیریز کا آغاز ہوا،،، ہوا یوں کہ میری دیکھا دیکھی، ملک نے بھی ایک دم جونہی مٹھی بھر عجوہ کھجوریں اٹھائیں، نکاہت اور کمزوری کی وجہ سے اپنی توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سیدھا منہ کے بل میٹھے پانی کے بڑے جگ میں جا گرا، پانی تو سارا ضائع ہوا سو ہوا، پانی کی گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سےپہلے تو ملک کو غوطے آگئے اور پھر ملک کا سر جگ کے پیندے میں پھنس جانے کی وجہ سے ، ملک یوں تڑپنے لگ گیا کہ مجھے کُند چُھری سے زبح ہوتے مرغِ بسمل کی یاد آ گئی، اس موقع پر میں نے مزید یادوں کو ملک کی زندگی کی خاطر قربان کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جگ کو اپنے دونوں پاوں میں جکڑ کر ملک کو ٹانگوں سے پکڑ کر باہر نکالا، اور قریب پڑے ہوئے ٹشوسے ملک کی نوک پلک کو دوبارہ درست کیا۔۔ گو بظاہر بیرونی چوٹوں کے نشانات معدوم تھے تاہم اندرونی چوٹوں کے اثرات ملک کے چہرے سے صاف ظاہر تھے، اسی لیئے میں نے ملک کو دو ٹشوز میں لپیٹ کر خشک پلیٹ کے اندر رکھ دیا ، تاکہ ملک گرم–سرد صورت کا شکار نہ ہو جائے، یہاں پر شاید صورتِ حال کا صیح اندازہ لگانے سے میں قاصر رہا اور میں نے کھانا پینا دوبارہ شروع کردیا۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ ایک ایسا شخص جو پچھلے آٹھ دن سے باہر کا کھانا کھا رہا ہو، وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اُسی کے گھر میں بیٹھ کر کوئی مزے سے کھا رہا ہو، اور وہ ٹشو میں لپٹا اپنے آپ کے خشک ہونے کا انتظار کر رہا ہو۔ بالاخر ملک کی برداشت جواب دے گئی اور وہ اپنے دانتوں سے ٹشو کی آہنی پرتوں کو کاٹ کر خود کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوگیا، اسی دوران میں اپنا گلاس پیپسی سے بھر کر اٹھانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ملک نے ایک بار پھر ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے اسے اپنے بائیں ہاتھ سے اٹھا لیا ، عین اس وقت کڑک اور کلِچ ٹائپ کی دو آوازوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا. پہلی آواز کا اندازہ تو مجھے ملک کے چہرے پر کرب اور تکلیف کے آثار اور ملک کو اپنا بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ سے اٹھاتے دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ یہ جو کڑک کی آواز آئی ہے ملک کے کندھے کی ہڈی ٹوٹنے کی ہے جو ٹنوں وزنی گلاس اٹھانے سے ٹوٹی ہے۔ اور دوسری آواز کی اس وقت سمجھ آئی جب ایک سایا سا باہر گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے سامنے سے گزرا، میں ایک لمحے میں جان گیا کہ یہ ضرور گلی کا شرط جیتنے والا وہ بچہ ہوگا جس نے اس بات پہ شرط جیتی ہوگی کہ لوگو آج ملک گھر پر افطاری کر رہا ہے اور لوگوں نے اس بچے کو دیوانہ جان کر شرط میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی ہار دی ہوگی اور اب وہ بچہ اس تصویر کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے اس علاقے کا امیر ترین فرد بن جائے گا۔(آج سوشل میڈیا پر اس تصویر کی موجودگی نے میرے شکوک و شہبات کو یقین میں بدل دیا، اور وہ بچہ فرخ عباس کے نام سے پہچانا گیا) یہاں دل سے بے ساختہ نکلا "وہ ملکا تیری قسمت، لوگ تیرے نام پر شرطیں لگا کر امیر بن جاتے ہیں اور تو یہاں جگ میں غوطے کھاتا پھرتا ہے”۔ ملک کی زور دار چیخ مجھے ایک بار پھر خیالوں کی دنیا سے حقیقت میں واپس لے آئی۔ میں نے دیکھا کہ ملک کا سینہ شدتِ درد کی وجہ سے دھونکنی کی طرح چل رہا ہے۔ میں نے باقی کھانوں پر الوداعی نظر ڈالی اور ملک کو اُس شاپر میں ڈال کر ہسپتال کی طرف بھاگا جو میں اس نیت سے ساتھ لے کر آیا تھا کہ واپسی پر بچا ہوا کھانا اس میں ڈال کر ساتھ لے جاؤں گا۔ کھانوںکی جگہ شاپر میںملک کودیکھ کرقسمت کی ستم ظریفی کا احساس کہ کیسے ایک ہی لٹھا سوٹ سلوانے اور کفن سلوانے میں استعمال ہوتا ہے۔
ملک کی ہائے ہائے برابر میرے کانوں میں پڑ رہی تھی اور یہی آوازیں اس وقت ملک کی زندگی کا پتہ بھی دے رہی تھیں۔
خیر میں راستے میں پڑنے والی سب سے پہلی علاج گاہ "شیدا سائیکل ورکس” میں داخل ہوا اور ڈاکٹر شیدا صاحب کو ملک کی بیماری کی بابت بتایا اور ملک کو شاپر سے نکال کر اُن کے حوالے کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے پیچ کس ، پلاس اور پانے کی مدد سے ملک صاحب کا ابتدائی طبعی معائنہ مکمل کرتے ہی انکار میں سر ہلاتے ہو کہا کہ حالات کی سنگینی اور ملک صاحب کی بتدریج بگڑتی ہوئی صحت اور ہر لمحہ کم ہوتی ہوئی دھڑکن کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ان کو مرنے ہی دیا جائے۔
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn