امرتا پریتم کی آپ بیتی "رسیدی ٹکٹ” سے اقتباس
کہتے ہیں ایک عورت ہوتی تھی ۔ بڑے سچے دل کے ساتھ اس نے کسی سے محبّت کی ۔ ایک بار اس کے محبوب نے اس کے بالوں میں سرخ گلاب کا پھول لگایا ۔ اور عورت نے محبّت کے بڑے پیارے گیت لکھے ، وہ محبّت پروان نہ چڑھی ۔ اس عورت نے اپنی زندگی سماج کی غلط قدروں پر قربان کر دی ۔ ایک ناقابل برداشت درد اس کے دل میں بیٹھ گیا اور وہ ساری عمر اپنی قلم کو اس درد سے بھگو کر گیت لکھتی رہی ۔ خود کا سوز وہ نظر بخشتا ہے ، جس نظر سے کوئی پرائے دردوں کو دیکھ سکتا ہے۔۔۔ اس نے اپنے درد میں ساری انسانیت کے درد کو ملا لیا اور پھر وہ گیت لکھے ۔ جن میں صرف اس کا نہیں تمام لوگوں کا درد تھا جب وہ عورت مر گئی اس کو زمین میں دفنا دیا گیا۔ اس کی قبر پر معلوم نہیں کس طرح گلاب کے تین پھول اگے ۔ ایک پھول لال رنگ کا تھا ایک کالے رنگ کا اور ایک سفید رنگ کا اور پھر وہ پھول خود ہی بڑھتے گئے ۔ نہ کسی نے آبیاری کی ، نہ کسی نے دیکھ بھال کی اور آہستہ آہستہ یہاں ایک پھولوں کا باغ بن گیا ، ایک حصّے میں سرخ رنگ کے گلاب ہیں ، ایک حصّے میں سفید رنگ کے اور باقی حصّے میں سیاہ رنگ کے ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں ، اس عورت نے جو محبت کے گیت لکھے ، سرخ رنگ کے گلاب بن گے ہیں ۔۔۔ اور جو سوز و گداز کے گیت لکھے ، وہ سیاہ رنگ کے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ اور جو اس نے انسانی پیار کے گیت لکھے ، وہ سفید گلاب کے پھول بن گئے ہیں
انتخاب: ایک قاری
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn