عرب ریاستوں نے مودی کا زبردست استقبال کیا ، بہت سے تجارتی معاہدے کئے، خواتین نے مودی کیساتھ برقعوں میں سیلفیاں بنوائیں، شیعہ حضرات نے وہ سب کچھ یہاں جی بھر کے سوشل میڈیا پر شئیر کیا، مزاق اُڑیا، طعنے دیے، پھر ایران نے ہندوستان کیساتھ سی پیک کے مقابلے میں بندرگاہ کا منصوبہ سائن کیا، عزیر بلوچ دیوبندی سے ایران کا پاسپورٹ پکڑا گیا، کلبھوشن پکڑا گیا اور پاکستان میں شیعہ مخالف سنی دیوبندی گروہ نے اسکا خوب فائدہ اٹھایا، ایرانیوں کو جی بھر کے بُرا بھلا کہا، پاکستانی شیعوں کو اسی بنیاد پر غدار اور ملک دشمن کہا گیا، اب تُرکی نے ہندوستان کے سلامتی کونسل کے رکن بننے کی حمایت کر دی ہے اور باری ایک بار پھر شیعہ حضرات کی آچکی ہے۔ حسب روایت ایک دوجے کو طعنے دینے کا کام جاری ہے۔ مگر کوئی عقل مند یہ سوچنے کی زحمت نہیں کر رہا کہ ہم جیسے دنیا کو دیکھتے، سمجھتے اور مسلم دنیا سے توقع رکھتے ہیں دنیا یا مسلم دنیا پر اسکا کوئی بھار بھرم نہیں۔ یاسر عرفات نے کبھی کشمیر کی حمایت نہیں کی تھی مگر پاکستان کی سڑکوں پر ٹائر جلائے جانے کا بیوقوفانہ عمل کبھی نہ رُکا۔ ہمارا جاہلانہ ریاستی بیانیہ اور اسکے اندر گدھوں جیسی عوام کبھی حقائق کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی ان مسائل کو دنیا کی آنکھ سے دیکھنے کی تکلیف ہی نہیں کی۔ ہم جاہل گنوار ستر سال میں یہ سادہ سی حقیقت ہی نہیں سمجھ سکے کہ جتنا مسلمان پاکستان میں آباد ہے اتنا ہی ہندوستان میں بھی ہے اور بنگلہ دیش بننے کے بعد تو ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ فٹے منہ ہم سب کا۔ مطلب اُمہ کا تصور بھِی کم از کم اس دور میں ہما پرندہ اور یوٹوپیا سٹیٹ جیسا ہے۔ یعنی اول تو اس کی کوئی عملی حیثیت اور حقیقت نہیں اور اگر ہے بھی تو ظاہر ہے کہ اسکے لیے ریاست سے زیادہ تعداد اہمیت رکھتی ہے اور مسلمانوں کی تعداد اقلیت ہونے کے باوجود ہندوستان میں ہم سے زیادہ ہے تو کس بنیاد پر مسلم دنیا آپکو ہندوستان سے زیادہ اہمیت دے گی؟ کیا آپ وہاں کے مسلمانوں سے زیادہ خالص مسلمان ہیں؟ افسوس اسے ناپنے کا دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ترقی کرنے والی دنیا میں کوئی پیمانہ نہیں۔ لے دے کر ایک حرمین شریفین کی حفاظت کا بہانہ رہ جاتا ہے اور اگر وہ بھِی ہندوستان ایک تگڑی مسلم آرمی یونٹ تیار کر لے تو وہ بھی آپ کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ اسکے علاوہ جو ہماری حیثیت بچتی ہے وہ ایک کرائے کی پروفیشنل عسکری ریاست کی بچتی ہے جسے بہرحال امریکی سعودی اتحاد ایک عرصہ سے استعمال کر کے ہمارا بیڑا غرق کر رہا ہے۔ کمزور عمارت جو ٹیڑھی بنیاد پر تعمیر ہوئی اسکی ایک منزل تو پہلے ہی زمین بوس ہوچکی اور دوسری کو بچانے کے لئے دانشورانہ طریقے سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے برسوں سے جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور ہر جھوٹ کیساتھ باقی ماندہ عمارت کی ایک ایک اینٹ نکلتی جا رہی ہے۔ خدارا منافقت سے پاک ہو کر حقائق کا سامنا کریں اور سچ بول کر مسائل کے حل تک پہنچیں۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn