چند روز پہلے ایک غیر معروف اخبار میں ایک مقامی اداکارہ کی خبر اور کچھ تصویریں شائع ہوئیں جن کے نیچے کیپشن کچھ تھا کہ "لاہور:معروف فلمسٹار آفرین پری روزنامہ سحر کو انٹر ویو دیتے ہوئے” ایک چوکھٹے چھپی چار تصویروں میں دلہن جیسے لباس میں بیٹھی معروف اداکارہ کی دو تصوریں کم و بیش ایک ہی پوز میں تھیں اور ایک تصویر میں بطور ثبوت معروف فلمسٹار کے ہاتھ میں مقبول اخبار تھما کر اسے اخبار پڑھتے بھی دکھایا گیا جس میں اخبار کی پیشانی واضح طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی۔ روزنامہ جنگ، ایڈ ایجنسیز، سافٹ وئیر ہاوسز اور متعدد پبلشنگ اور ڈیزائن ہاوسسز کیساتھ گرافک ڈیزائنر سے لے کر آرٹ ڈائریکٹر اور کریٹو ڈائریکٹر (creative director) جیسے عہدوں پر وسیع تجربہ رکھنے کے باجود پچھلے کئی روز سے اس بات کا تعین کرنے میں ناکام ہوں کہ اس کیپشن اور تصویروں کیساتھ "معروف اخبار معروف ادکارہ کو بیچنا چاہ رہا تھا یا خود کو؟”۔
واضح کرتا چلوں کہ اسی اخبار کا ایک نیوز چینل بھی ہوا کرتا تھا جس پر حالات حاضرہ کے پروگرام کم اور ہندی فلمیں، گانے اور شوگر کے علاج کے اشتہارات زیادہ چلتے تھے۔ یہ وہی چینل ہے جس پر میں نے فرحت عباس شاہ صاحب کی دعوت پر تین پروگرام کیے تھے اور چوتھے کی باری اس لیے نہیں آئی تھی کہ میں شاید مالکان کے معیار صحافت پر پورا نہیں اترتا تھا، یا پھر میاں منشاء، نواز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میری لب کشائی انھیں غیر مناسب محسوس ہوئی تھی۔ بہر حال فرحت عباس شاہ صاحب کی طرف سے اس وقت یہ عُذر پیش کیا گیا تھا کہ چینل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آپ مسلسل تین پروگرامز میں ایک ہی مہمان تجزیہ نگار کو مت بلائیں۔ فرحت عباس شاہ کا عُذر سننے کے بعد میں چینل کے مالک کے پاس ایک ٹاک شو کی پروپوزل بھی لے کر گیا تھا، مگر وہ بھی شاید ان کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔ صحافت میں صحافت کا نقاد ہونے کے باوجود ایک عرصہ تک اس تمام قصے کو بیان نہیں کیا کہ پھر کہا جائے گا کہ یہ بندہ ہمارے پاس بھی آیا تھا، ہم نے لفٹ نہیں کروائی تھی تو ہمارے خلاف بولنے لگا۔ بہر حال اپنے ہی لکھے ہوئے قول کے مطابق کہ "سچ لکھنے کے لیے بعض اوقات خود کو بھی ننگا کرنا پڑتا ہے” لکھ رہا ہوں۔
چند ماہ پہلے میرے سالے کے ایک سسرالی رشتہ دار سے پنڈی میں ملاقات ہوئی، کہنے لگے "آپ روزنامہ مشرق کے لیے کیوں لکھتے ہیں، وہ پرچہ تو فائل میں بھی نہیں لگتا، آپ کہیں تو میں روزنامہ سحر میں آپ کے لیے بات کروں؟ عرض کیا، جناب ایک عرصہ روزنامہ جنگ سے بھی منسلک رہا ہوں، انکے سنڈے میگزین میں بے ضرر قسم کے سماجی اور معاشی مسائل پر لکھنے کی آفر ہوئی تھی، مگر بندے کو اس عمر میں نہ بڑے اخبار سے کوئی غرض بچی ہے نہ پندرہ سو دو ہزار کے چیک سے۔ کالم نویسی میں کوئی پیسہ نہیں، بڑے اخبار بھی کچھ زیادہ نہیں دیتے، باقی معروف ترین کالم نویسوں کی کمائی اور ظاہری حیثیت بھی ان کے پیشے سے ثابت نہیں ہوتی، رہی بات چھوٹے اور غیر معروف اخباروں کی تو وہ تو شکریہ ادا کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ نہ پیسے کے لالچ میں لکھتا ہوں نہ شہرت اور نہ زیادہ سے زیادہ پسند کیے جانے کے لیے۔ لکھتا ہوں محض اپنی تسلی اور اپنے ضمیر کو مطمئن رکھنے کے لیے۔ اپنی پیشانی پر "مجھے ہے حکم اذان” کا نعرہ لکھے بغیر سچ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ صحافی ہوں سیاستدان نہیں جو منصوبے پر عملدرامد سے پہلے کریڈیٹ وصول کرنے کی خواہش رکھوں۔ مشرق میں لکھتا ہوں کہ کم از کم اخبار سے جہالت کی بو نہیں آتی، ممتاز شاہ صاحب اس کے مدیر ہیں، اور وہاں میرے کالم بغیر کسی کانٹ چھانٹ بلا خوف چھاپے جاتے ہیں”۔ باقی میں اچھا برا یا جو کچھ بھی ہوں، تاریخ اس کا فیصلہ خود کر لے گی۔
اس لمبی تمہید اور مثالوں کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ہماری تیسرے چوتھے درجے کی صحافت میں تعلیم کے علاوہ جس شے کی شدید کمی ہے، وہ تربیت ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں تیسرے چوتھے درجے کی صحافت کا مطلب معروف اور غیر معروف صحافتی ادارے یا صحافی ہرگز نہ لیا جائے، اللہ کے فضل سے صالح ظافر صاحب جیسے بہت سے جلیل القدر صحافی ابھی زندہ سلامت ہیں اور جنگ گروپ بھی قائم و دائم ہے۔ چھوٹے اور غیر مقبول صحافتی ادروں، نیز چینلز اور ان کے مالکان سے تو محض اتنا گلہ ہے کہ وہ دانستہ طور پر اپنے اداروں کو غیر معیاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی ڈھنگ کا پڑھا لکھا بندہ اگر پیسوں کے لالچ کے بغیر بھی ان سے رجوع کر لے تب بھی اسے لفٹ نہیں کروائی جاتی۔ رب جانے ان کے اس عمل کے پیچھے کوئی مصلحت ہوتی ہے یا کوئی چھپا ہوا احساس کمتری۔ مگر ایک بات جو طے ہے، وہ یہی ہے کہ، ان کے اسی طرح کے رویوں سے لوگوں کا صحافت سے اعتبار دن بہ دن اٹھتا چلا جا رہا ہے، بلکہ بعض مثالوں کی بنا پر کچھ پڑھے لکھے لوگ اسے جہالت بھی تعبیر کرنے لگے ہیں۔
نجی چینل کی رپورٹر کو تھپڑ پڑنے کے تازہ واقعہ کے بعد صحافت کے لیے الارمنگ اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ رپورٹر عورت ہونے کے باوجود اکثریت کی ہمدردیاں اسکے ساتھ نظر نہیں آ رہیں۔ اس اس بدنما مثال کے بعد اُمید رکھنی چاہیے کہ دیگر چھوٹے موٹے فیلڈ رپورٹرز کی پٹائی بھی عنقریب ہونے والی ہے۔ نیم خواندہ قسم کے مالکان اور ہر قسم کی اخلاقیات اور پیشہ ورانہ تربیت، مہارت اور بصیرت سے پاک نسل کے نیوز ایڈیٹرز، پروڈیوسرز، گلا پھاڑ رپورٹرز، اینکرز اور سرکاری حج عمرہ کرنے والے پلاٹ ہڑپ صحافیوں کی وجہ سے اب عوام کے دلوں میں صحافت کے لیے کوئی عزت دار مقام نہیں بچا۔ مکمل دیانتداری اور غیر جانبداری سے سمجھتا ہوں کہ جہاں ایف سی اہلکار کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، وہیں نجی چینل کی خاتون روپورٹر کو بھی آئندہ کسی صحافتی ادارے میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ اسی میں ہم سب کی عزت اور بقاء ہے، ہمیں اپنے گھر کی صفائی بھی کرنا ہوگی، حد سے بڑھے کمرشل ازم اور اچھی ریٹنگز کی دوڑ میں صحافت کے بتدریج گرتے معیار کو بہتر بنانا ہوگا۔ ورنہ یاد رکھیے سوکھی لکڑی کے ساتھ گیلی لکڑی بھی جل جایا کرتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn