Qalamkar Website Header Image

امجد فرید صابری… ایک مقتول… ایک شہید…

sabriبچپن میں ہماری جغرافیہ کی ٹیچر نے بتایا تھا کہ ہمارے ہاں سال کا سب سے طویل دن 21 جون کو ہوتا ہے اور 22 جون کو ٹھہرجاتا ہے اس کے بعد ہر روز ایک آدھ منٹ کے اضافے کے ساتھ بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتا ہے.22جون 2016ءکا دن تو ذہن کی تختی پر ایک ایسا ان مٹ نقش بن کر ٹھہر گیا ہے جو اپنے اندر صدیوں کا کرب لیے ہوئے ایک ہی نکتہ پر مرکوز ہوگیا ہے کیوں کہ ایسی شخصیت کے دوبارہ جنم اور تکمیل کو صدیاں ہی لگ جاتی ہیں 22 جون کی سحرکو کیا خبر تھی کہ اس کی شام کا دامن اس دردناک خبر سے داغ دار ہوجائے گا کہ آج غلام فرید مقبول صابری کے بیٹے اور مقبول صابری کے بھتیجے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا. یہ ایک ایسا سانحہ ء عظیم ہے جس کا مداوا کبھی نہ ہو پائے گا.سحری ٹرانسمیشن میں انکی پر سوز آواز میں پڑھی گئی نعت باربار یاد آرہی تھی جس میں قبر اور نزع کے عالم کے ذکر پر نہ صرف وہ خود آبدیدہ ہوگئے بلکہ اسے سننے والی ہر سماعت کی آنکھ پرنم ہوگئ تھی..دل دوہرے دکھ سے بھر گیا ایک تو یہ کہ اللہ اور رسول ص کا ذکر کرنے والی اتنی پرسوز آواز ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی اور دوسرا سوشل میڈیا پہ لوگوں کے نظریات رویوں اور سوچوں سے دل بہت بوجھل ہوا.ہر آنکھ اشک بار تھی اکثریت نے اظہارِافسوس اور اظہارِ دکھ کیا جبکہ کچھ لوگ اپنی دانشوری اورفہم و فراست کی دکانداری چمکانا شروع ہو گئے تھے کہیں سٹیٹس لگا کر تو کہیں کمنٹ بازی کرکے. ایسے لوگوں کے خیالات پڑھ کر بہت افسوس ہوا. کچھ دانشوروں کو یہ اعتراض تھا کہ انہیں شہید کیوں کہا جا رہا ہے وہ کون سا اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں اس بات سے مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ ہم اسلامی تعلیمات و حقائق سے کس قدر دور ہیں. ہم یہ بالکل نہیں جانتے کہ حادثاتی موت مرنے والےکو،آگ میں جھلس کر مرنے والے کو ،پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو ،سفرکے دوران مرنے والے کو ،حصول ِعلم کے دوران مرنے والے کو اور نہتے قتل کر دئیے جانے والے کو اسلام میں شہیدِناقص کہا گیا ہے چاہے وہ کوئی بھی مسلمان ہو اس پر تمام علماء اور فقہاءکا اتفاق ہے اس لحاظ سے تو واقعی امجد صابری شہید ہی ہوئے قتل بلاشبہ ایک سفاک عمل ہے
لیکن اس کے نتیجے میں امجد صابری کی موت سفر میں روزے کی حالت میں اور ظلم سے ہوئی لہٰذا وہ شہید ہی کہلائیں گے یہ تو ایک رخ ہے کہ وہ شہید ہوئے دوسرا رخ اس غلط سوچ کا ہے کہ ان کو شہید گردان کر اور رمضان شریف کے ماہ مقدسہ میں وفات کے فضائل کو سامنے رکھ کر ہم اس بات پر اطمینان کا اظہار کریں کہ ان کا تو رتبہ بلند ہوا ہے لہٰذا یہ قسمت والوں کو نصیب ہو تا ہے.اس نکتے پر میرا موقف یہ ہے کہ شہادت ان کا مقدر تھی تو چاہے کسی طرح بھی انہیں ملی مگر اس شہادت کو متبرک مان کر ان کے قتل کو قتل نہ سمجھنا ،اسے انسانیت کا نقصان قرار نہ دینا اور اس جرم سے چشم پوشی اختیار کرنا بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے.یہ ان کی شہادت تو ہے مگر ساتھ ہی یہ ایک قتلِ عظیم ہے.ایک دور کا ایک عہد کا قتل ایک صدی کا قتل ہے پاکستان سے باہر ہماری ساکھ کا قتل ہے مگر کیسی ساکھ ؟ ہم تو خود عجیب و غریب بیان بازی کر رہے ہیں ایک بھائی نے اپنی وال پہ کچھ اس طرح سے سٹیٹس لگایا کہ”معروف قوال امجد صابری کو کراچی ،لیاقت آباد میں گولیوں سے بھون دیا گیا. وہ جو کہتا تھا قسمت میں میری چین سے جینا لکھ دے ڈوبے نہ کبھی میرا سفینہ لکھ دے بےچارہ کیسے بے چینی میں مارا گیا ".یہ پڑھ کر میں تڑپ گئی اور اس بھائی سے الفاظ پہ غور کرنے کی گزارش کی تو اس نے الفاظ بدلے. پھر ایک جگہ لکھا تھا کہ وہ تو محض ایک قوال تھا اور گانے گاتا تھا ایسے پیسہ کماتا تھا وغیرہ وغیرہ. میں طرح طرح کی باتیں پڑھ کر سوچ رہی تھی کہ
sabri kidsکس قدر تنگ نظری ہے.کتنے گھُٹے ہوئے ذہن ہیں ہمارے. امجد فرید صابری محض ایک قوال نہیں تھے وہ ایک روحانی رہبر بھی تھے.خوش الحانی اور سوزوگداز انہیں اللہ پاک نے بخشی تھی. ان کی آواز میں وہ روحانی جادو اور تاثیر تھی کہ سننے والے کا دل ان کی آواز کے ساتھ سفر کرتا ہوا اپنے باطن کی گہرائیوں میں اپنی روح سے مصافحہ کرلیتا ہے اور یہ میرا یا ہمارا نہیں غیرمسلموں کا بھی تجربہ ہے جس کا ذکر جمشید اقبال نے اپنے ایک مضمون "یہ نشانی کس نے مٹادی ہے؟” میں مفصل انداز میں کیاہے. کہیں امجد صابری کے مسلک اور فرقے کی بات کہیں ان کے قوال ہونے کا ذکر تو کہیں ان کے شہید کہلانے یا نہ کہلانے پر بحث اور تاویلیں جاری تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ مسلک فرقے تو بعد کی بات ہے وہ ایک انسان پہلے تھے جن کا قتل ہوا. وہ ایک باپ تھے ان بچوں کے جن کے بابا گھر سے گئے تھے اور کبھی واپس نہیں آئیں گے اب وہ بھی یتیم کہلائیں گے………

حالیہ بلاگ پوسٹس