محمد ذکی کیفی ایک نابغہ روزگار شخصیت (ایک تنقیدی نظر) | امینہ عمر

بیسویں صدی جو کہ اردو ادب کے ارتقاء کی صدی تھی اور اردو ادب تعمیر و ترقی کی شاہراہوں پہ پورے آب و تاب سے گامزن تھا ایسے میں اردو ادب کے افق پر بہت سے ستارے جگمگائے کچھ تو پیدائش کے ساتھ ہی ڈوب گئے
بقول حضرت کیفی ،ایک ستارہ چمکا، تڑپا اور تڑپ کر ڈوب گیا۔اور کچھ تو آنے والی نسلوں کے لیے لازوال یادوں اور نئی راہوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ بہت سی ایسی ہستیاں بھی سامنے آئیں جن کے کام کو لفظ میرے ھونے کی گواہی دیں گے۔ چہرے کا کیا ھے وہ تو میرے ساتھ چلا جائیگا کے مصداق تو ہاتھوں ہاتھ لے لیا گیا مگر نام کہیں پس پشت ہی ڈال دیا گیا۔بقول شاعر دو چارسے دنیا واقف ھے، گمنام نجانے کتنے ہیں
ایسے میں ایک نام "محمد ذکی کیفی” کی پہچان کا لبادہ اوڑھے 07۔03۔1926 کو بھارت کے دیوبند نامی قصبے میں مفتی اعظم پاکستان جناب مولانا مفتی محمد شفیع رح کے فرزند ارجمند کی حیثیت سے پورے آب و تاب سے ابھرا۔ اور پھر صرف 48 سال کی نہایت قلیل سی عمر میں اردو ادب کے کارخانے میں اپنے تئیں وافر حصہ ڈالتے ھوئے یوں پلٹا گویا زبان حال سے کہہ رھے ھوں
جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ھے
تمہی ہو گے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے

آپ کو یہ شرف حاصل ھے کہ آپ کے سارے گھرانے کو خواتین ہوں یا مرد مبداء فیاض نے سخن وری کے بہترین ورثے سے نوازا آپ کے داد حضور حضرت مولانا یاسین دیوبندی علم کا سمندر تھے پھر آپ کے والد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی علم و عمل کے بحر بیکراں جو کہ بذات خود ایک قادر الکلام شاعر تھے مشہور زمانہ تفسیر معارف القرآن سمیت ڈھیروں دیگر کتابوں کے مصنف جن کا فتوی عرب و عجم میں مانا گیا اور تا حال مانا جاتا ھے۔ آپ کو ان کے سب سے بڑے فرزند ہونے کا شرف حاصل ھے۔ میں سمجھتی ھوں اردو ادب کو جو سرمایہ اس گھرانے سے ملا وہ شاید کہیں اور سے نہیں مل سکا اس گھر کے بزرگوں سے لے کر بچوں تک نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور بھرپور ڈالا جس کا سلسلہ تا حال "سعود عثمانی” کی شکل میں جاری و ساری ھے۔ پھر آپ کے دوسرے بھائیوں کو بھی قدرت نے کسی کمی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ مولانا محمد ولی رازی جو کہ دیگر کتب کے ساتھ اردو ادب میں پہلی غیر منقوط ایوارڈ یافتہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنے کا شرف رکھتے ھیں۔ حالیہ مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور سب سے چھوٹے بھائی مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتھم العالی تفاسیر، احادیث، فقہ، سیرت، اصلاحی خطبات، سفر نامے، شاعری بالخصوص نعتیہ شاعری میں بے مثل ھیں۔ اس سارے گھرانے کو عربی، اردو، فارسی، اور اب انگریزی پہ بھی ید طولی حاصل ھے۔ اور سب سے بڑی اور مزے کی بات اس گھرانے کی یہ ھے کہ فرقہ واریت کی منافرت سے پاک ھے۔

اگر آپ سوچ رھے ھیں کہ اس موضوع کو زیر قلم لانے کا سبب کیا ھے!؟ تو عرض ھے کہ آپ نے بجا سوچا۔ در اصل بات کچھ یوں ہے کہ کیفی صاحب کا کام اگرچہ مختصر پراثر ہے مگر اسے وہ پذیرائی نہیں ملی جو اس کا حق تھا اس کی شکایت مجھے صاحبزادہ سعود عثمانی صاحب سے بھی ہے۔ یقین مانئے اپنے بچپن کے 2004 سے لے کے آج تک میں نے جب بھی اس نام کو سرچ کیا مجھے کبھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا آج اگر ملا تو ادھوراپن لیئے ہوئے دل بہت دکھتا ھے۔ حلانکہ انکی غزلیں گائی بھی گئیں۔ نعتیں بھی بہت مشہور نعت خوانوں کی زبان پہ مہکیں۔ مگر سیر حاصل تبصرہ سوائے آپ کے شعری مجموعہ "کیفیات” کے دیباچہ کے کہیں نہ ملا۔ ماہر القادری ، احسان دانش، ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے جید نقاد اور جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اور خود حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی اپنی مثال آپ جیسی ہستیوں کی خوبصورت تقاریض سے مزین دیباچہ اور جا بجا "مصرع طرح” پر کہی گئیں غزلیں ان کے کلام کی عمدگی و نفاست کا منہ بولتا ثبوت ھے۔
نعت گوئی جو اس خاندان کا خصوصی وصف ھے۔ بارگاہ رسالت میں خراج عقیدت کا انداز ملاحظہ ھو۔

جالیوں سے روضے کی چاندنی سی چھنتی ھے
اس کا نور کیا ہو گا نور جس کا ہالہ ھے
یتیم و بے نوا سمجھا تھا جن کو اھل نخوت نے
جہاں پر چھا گئے وہ سرور دنیا ودیں ھو کر
اے دوست مرے واسطے بس اب یہ دعا کر
کیفی کو الہی ! غم محبوب عطا کر
اک بار ھے دل کھول کے رونے کی تمنا
سر روضہ اقدس پہ ندامت سے جھکا کر
تنگ آ جائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی

محبت کو محبت کے خالص سانچے میں ڈھال کے پہلی دفعہ شاید متعارف کروایا گیا اور وہ بھی اس دور اور اس صنف (غزل) میں جس میں بے باکی و عریانی سے دامن کو بچانا نا ممکنات میں سے ھے۔ ہوس اور محبت کے درمیان ایک حد فاصل کھینچی گئی۔ صرف ہوس اور عشق کے درمیاں لطیف سا فرق ظاہر کرنے کےلئے آپ نے اتنے اشعار کہہ دیئے کہ باقاعدہ ایک دفتر قائم ھو سکتا ھے۔ نمونے کے طور پہ چند ملاحظہ کیجیئے۔

کیفی تم بھی قرب کے طالب؟
فرق کرو کچھ عشق و ہوس میں
☜اھل ہوس اور اہل وفا میں فرق یہی ہے تھوڑا سا
راحت ان کو غم میں حاصل، ان کو غم ھے راحت کا
☜عشق کی منزل نہ پائیں گے کبھی اہل ھوس
دور ہوتے جائیں گے جتنا بھی چلتے جائیں گے

ان کے کلام میں ایک عرفان، آگہی، ایک پرواز، ایک لطف و لوچ اور زندگی کی تہوں میں ڈوب کر کوئی راز معلوم کرنے کی کیفیت معلوم ھوتی ھے

ابھرا تھا میرے دل میں بھی اک نقش تمنا
یہ کعبہ بھی کچھ دیر کو بت خانہ ہوا تھا
بے درد حوادث اسے پتھر نہ بنا دیں
یہ دل جو تیرے غم سے پگھلنے کے لئے ہے
کیا طرفہ تماشا ھے کہ ویرانہ دل میں
ھر غم کا شجر پھولنے پھلنے کے لیئے ھے
وعدہ کوئی جھوٹا ،کوئی جھوٹی سی تسلی
دل کیسے کھلونوں سے بہلنے کے لیئے ھے
ایک خوبصورت غزل میں تلمیحی انداز اپنائے ھوئے
کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے
چار سو پرچم گریبانوں کے لہرائے گئے
انکے ہاں عاشقی اور شاعری دونوں پیشہ نہیں زندگی کا معمول نظر آتے ھیں۔
سمجھ کر، سوچ کر راہ وفا میں پاؤں رکھا ھے
یہ مت سمجھو کہ ہم واقف نہ تھے انجام سے پہلے
ستارے ڈوبنا ، شبنم کا رونا، شمع کابجھنا
بہت سے مرحلے ہیں صبح کے ہنگام سے پہلے
نہ فکر حبیب و داماں تھی نہ رسوائی کا غم کوئی
بڑی راحت میں گزری ھوش کے الزام سے پہلے
نرمی و ملائمت، معصومی و لطافت سے بھر پور متاثرکن انداز تو ملاحظہ کیجیئے
آتا ھے خدا یاد جسے دیکھ کے کیفی
اس دشمن ایماں کو صنم کہہ نہیں سکتے
جب کوئی غنچہ چٹکتا ہے تو چونک اٹھتا ھوں
یہ ترے دل کے دھڑکنے کی صدا ھو جیسے
میں دل فگار، آبلہ پا، خستہ تن سہی
لیکن مرا مذاق طلب تازہ دم تو ھے
ڈر ھے نگاہ لطف یہ پردہ اٹھا نہ دے
قائم ھمارے ضبط کا اب تک بھرم تو ہے
بڑھی ھے یاس تو دل کو تسلیاں دینے
وہ مجھ سےچھپ کرمرے پاس آئےہیں کیا کیا

ذکی کی غزلوں میں شگفتگی، سنجیدگی، شائستگی، برجستگی، بلند پروازی، سر مستی دلکشی و رعنائی زبان و بیان کی چاشنی وافر مقدار میں پائی جاتی ھے۔

اس بزم میں مدت سے نہیں گرچہ رسائی
نظروں میں مرے آج بھی عالم ھے وہیں کا
وہ خوش ھیں تو پھر سوز ھی سے ساز کر اے دل
ضد چھوڑ بھی دے ، مان لے کہنا یہ انہیں کا
اک ہم، کہ نہ بھول سکے ان کو کہیں بھی
اک وہ کہ انھوں نے ہمیں چھوڑا نہ کہیں کا
جینے کا سکھایا ہے مجھے اس نے سلیقہ
جس شوخ پہ مرنے کی تمنا ہی رھی ھے

ذکی نے چھوٹی بحروں میں بھی طبع آزمائی کی ھے جو کہ سلاست و پرکاری سے بھرپور ھے۔

دنیا ھے اک رین بسیرا
آج مرا، کل تیرا ڈیرا
وہ نہیں آئے، رات گئی
ھائے رے یہ بے نور سویرا
کس کو خبر ھے کب دن پھیرے
اس کی گلی میں روز کا پھیرا
حیرت میں گم دیکھ رھا ھوں
اپنی آنکھیں جلوہ تیرا
وقت تمہیں خود سمجھا دے گا
کون تھا رہبر کون لٹیرا
کیفی کہہ کر حال جنوں
سب کو رلا کر خوب ہنسا
روایت کا اثر

ایلیٹ ادب پر اسلاف کے اثرات کی بات کرتے ہوئے کہتا ھے "کوئی شاعر یا فنکار خواہ وہ کسی بھی فن سے تعلق رکھتا ھو تن تنہا اپنی کوئی اہمیت نہیں رکھتا اسکی عظمت اور بڑائی اسی میں مضمر ھے کہ پچھلے شعراء اور فنکاروں سے اس کا کیا رشتہ ھےا؟” اسی لئیے تتبع شعراء اور فنکاروں کی مجبوری ھے۔ مگر بعض شعراء کے ہاں تتبع غلو میں تبدیل ہو کے سرقہ و توارد کی شکل میں تبدیل ھو جاتا ھے۔ذکی نے بھی تتبع کیا ھے مگر اس طرح کہ اپنی انفرادیت کو مجروح نہیں ہونے دیا آپ کے کلام پہ حسرت و جگر کی بازگشت واضح سنائی دیتی ھے مگر آپ کی انفرادیت بہرحال برقرار ھے۔
کوئی شاعر ہو اور میر کے اسلوب کو نہ سراہے اور اس کی عظمت کا معترف نہ ہو یہ تو کبھی ہو نہیں سکتا۔ اپنے اسلاف کی اس روایت کو ذکی نے زندہ رکھتے ھوئے میر کی عظمت کا اعتراف کیا ھے۔

☜خون جگر پلائیے کیفی ابھی کچھ اور
آساں نہیں ھے کہنا غزل میر کی طرح
پھر ایمائی انداز میں خود کو میر کا ہم سر بھی قرار دیتے ھیں۔
یا دل میں اترتی ھیں کسی شوخ کی باتیں
یا میر کا انداز سخن رام کرے ہے

ماہر القادری کے مطابق "1955 میں آپکی پہلی غزل سنی اس سے قبل وہ خاموش سامع تھے۔اور انکے مکان پہ مشاعرے ھوا کرتے تھے۔”
آپکی وفات کا سن 1975 کا ھے اس کے مطابق آپکی شعر گوئی کی عمر تقریبا 20 سال کا عرصہ ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں ایسی فقید المثال شاعری اور ہر زمین اور ہر بحر میں گوناگوں رنگوں سے بھرپور یہ یقینا قدرت کابہت بڑا کرشمہ ھے۔
ضرورت اس امر کی ھے اسے زندہ رکھا جائے اور فیس بک پہ ان کا بھرپور کلام اپ لوڈ کیا جائے۔ کیونکہ فیس بک پہ موجودہ کلام تشنگی کا احساس دلاتا ھے۔ اس ضمن میں کچھ مخلصین کی مدد درکار ھے اگر کوئی نہ آئے تو راقمہ بذات خود اس کو اپ لوڈ کرنے کے لئے تیار ہے۔
بقول کیفی

جس کو ہو فکر آبلہ پائی وہ نہ ہمارے ساتھ چلے
وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے جس کو جنوں ہو منزل کا

حالیہ بلاگ پوسٹس