Qalamkar Website Header Image

جنگ میں الطاف حسین کا موقف

Dr Riaz Ahmedالطاف حسین کے ۲۲ اگست کے خطاب نے ایک سیاسی زلزلہ بپاکر رکھاہے۔ ہزاروں سوالات میں چند یہ ہیں: ایم کیو ایم فوجی سازش تھی اب فوج اسے ختم کر سکتی ہے، ایم کیو ایم اور فوج ایک نئے سیٹلمنٹ کی تلاش میں ہیں جسے مائنس ون کہا جاتا ہے، ایم کیو ایم کی قیادت دوغلی ہے لڑ بھی نہیں سکتی اور واویلے کے بعد معافیاں مانگتی ہے، الطاف نہیں تو ایم کیو ایم نہیں،ایم کیو ایم لبرل سیکولر ہے تو فوج اسے ختم کر کے طالبان بٹھانا چاہتی ہے، فوج ہی ایم کیو ایم کا حل ہے، فوج سیاست پر پابندی لگا رہی ہے، فوجی مارشل لاءآنے والا ہے، وغیرہ۔
میں نے مارکس ازم سے یہ سیکھا ہے کہ کسی بھی سیاسی یا عسکری حرکت کو ریاست اور سرمائے کے نکتہ ِ نظر سے دیکھا جائے۔کسی بھی سیاسی یا عسکری عمل کو محض عمل میں نہیں بلکہ اس کے اثر میں دیکھا جائے۔حرکت اور عمل دونوں کے طبقاتی مطلب اور اثرات ہوتے ہیں۔ مثلااکبر بگٹی کو جب شہید کیا گیا ریاست نے پیغام دیا کہ بگٹی جیسے پاکستان نواز اگر بلوچ قومی حقوق کی سیاست ریاست سے ٹکراؤ کی صورت کریں گے تو ان کو بھی بلوچستان میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اکبر بگٹی سردار تھے، طبقہِ اعلیٰ جیسوں کی طرح دولت مند تو نہ ہوں گے مگر اُنہی کے خطے سے نکلنے والی تیل وگیس کی دولت پر براجمان ضرور رہتے تھے۔ یوں اکبر بگٹی نے جب ریاست کے کرتا دھرتاؤں کی نظر میں سرخ لکیر عبور کی توجنرل مشرف نے کہا کہ وہاں سے گولی لگے گی کہ پتہ بھی نہ چلے گا کہ کہاں سے آئی۔ مطلب یہ تھا کہ تم ہم سے دشمنی کرو گے ؟ تم اور تمھاری اوقات۔ یہ تھا ننگا ریاستی اشارہ اور پھر راکٹ حملہ ہوا ۔اکبر بگٹی کی ہلاکت کا ایک اثر محروم و مظلوم بلوچ پربھی ہوا۔ یہ بہت بڑے پیمانے پر جاگ اُٹھا اور ریاست کے خلاف اس کا عزم پختہ تر ہو گیا۔ لیکن ریاست کو محروم و مظلوم کو پیغام دینا مقصود نہ تھا۔ریاست کا پیغام بلوچ طبقہِ اعلیٰ کےلئے تھا کہ ریاست اب پہلے سے کہیں زیادہ جارح ہے بلوچ سردار وغیرہ اب اس کے لیے اتنے متبرک اور موثر نہیں رہے کہ یہ ان کی چھوٹی موٹی مزاحمت کو برداشت کرے۔اس زمانے میں ق لیگ کے مشاہد حسین اور شجاعت نے خاصی کوشش کی کہ یہ دکھائیں کہ وہ اس بندھن کو توڑنا نہیں چاہتے بلکہ بگٹی سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے، وہ ریاست اور سردار کے درمیان رشتے کو طریقے سے بدلنا چاہتے تھے۔اسی طرح نواز شریف نے بھی کڑی تنقید کی تھی کہ ریاستی اداروں نے بگٹی کا جو قتل کیا ہے وہ بڑی غلطی ہے اور اس کا ازالہ کیا جائے گا، یعنی یہ کہ بقیہ سردار اِسے ایک غلطی سمجھیں ،ریاست جلد اپنا پرانا رشتہ استوار کر لے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جنرل مشرف نے جو رشتہ توڑا، اوقات یاد دلائی، سردار ابھی تک اسی ٹوٹے رشتے کے ساتھ فوجی افسران کے اشاروں پر ہیں اور اپنی اوقات میں بھی ہیں۔ مشرف نے بگٹی کا جو قتل کیا وہ ریاستی پالیسی بنا اور آج بھی ہے۔
یہ مثال اس لئے دی گئی کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ریاستی عمل اور حرکت کو مدِ نظر رکھا جائے تو آپ کسی حکومت کے رویہ یا فوجی افسران کے کردار کے بجائے ریاست میں حاوی پہلو کو جانچ سکتے ہیں۔ اگر آپ ریاست کے بجائے ریاست کے اندر قوم، فرقے ، ریاستی ادارے جیسے پارلیمان یا فوج کی حرکت کو ریاست کی مجموعی حرکت سے الگ کرکے دیکھیں گے گے تو پھر معاملہ گڑبڑا جائے گا۔ ریاستی ادارے، اور ان میں فوج بالخصوص، کسی یکتا یکسو حالت میں نہیں رہتے۔ یہ ریاست کے اندر صوبوں، شہروں، دیہاتوں، قصبات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی صورتحال میں تبدیلی اور ان سب میں مقدم سرمایہ داری کے مفاد کے پیشِ نظر اپنے رحجانات تبدیل کرتے ہیں۔ ریاست کے پانچ ادارے ہیں۔پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ، فوج اور میڈیا۔ قانون سازی، قانون پر عمل داری، ریاست کا انتظام، ریاست کا دفاع اور ریاست کا پراپیگنڈہ یہ مل کر سرمایہ داروں کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔ کوئی ایک ادارہ بطور فوری ضرورت تو کوئی کام کر جاتا ہے لیکن بقیہ ریاست اس کے ساتھ ہم آہنگی میں آکر آگے بڑھتی ہے۔
الطاف حسین نے ۲۲ اگست کو کراچی پریس کلب پر جو تقریر کی اسے سمجھنے کے لیے بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ ریاست نے اس پر ردعمل کیا کیا۔ یہ نہیں کہ جنرل بلال یا جنرل راحیل یا جنرل رضوان کا ایم کیو ایم سے بغض ہے یا یہ کہ یہ پنجابی ہیں بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ریاست نے بحیثیت مجموعی جو ردعمل دیا وہ کیا تھا۔رینجرز و پولیس نے ایم کیو ایم کے کلیدی رہنماﺅں کو گرفتار کر لیا،شہروں میں تمام دفاتر سیل کر دئیے، پورے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ وزیر اعظم سے لے کر ایک معمولی میڈیا ہاﺅس کا نیوز اینکر تک ایک ہی زبان میں بتاتے رہے کہ جیسے پاکستان پر کسی ملک نے حملہ کر دیا ہے اور اِس کا وجود خطرے میں ہے۔ جنرل راحیل ہوں یا نواز شریف یا میڈیا سب نے یک زباں ہو کر ایک ایک لفظ کا حساب اس طرح لینے کا اعادہ کیا کہ جیسے یہ ایک ایک گولی ، ایک ایک لاش، ایک ایک اِنچ کا حساب لینے جا رہے ہیں۔
الطاف حسین کی تقریر دراصل کراچی میں تین سال سے جاری فوجی آپریشن کا سب سے بڑا ردعمل تھا۔ اور اسی ردعمل نے وقتی طور پر اس آپریشن کو کامیاب بھی کر دیا۔ ایم کیو ایم میں ایک اور پھوٹ پڑ گئی اور اس کی سیاسی قوت کمزور ہو گئی۔ فوجی آپریشن ویسے بھی ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ اگرعام سیاسی عمل سے ریاست ایک مقصد حاصل نہیں کر پاتی تویہ قوت کا استعمال کر کے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اب اس قوت کے استعمال سے کس قسم کا جبر اور کس قسم کا ردعمل ابھرتا ہے ریاست کو اس کی پرواہ اس لیے نہیں ہوتی کہ اِس کے اداروں میں ایک اتفاق پیدا ہوجاتا ہے کہ اب یہی طریقہ رہ گیا ہے۔ نو گیارہ ہو یا آرمی پبلک اسکول کا سانحہ اِن کے بعد ریاست ایسے ہی طریقوں کو آخری حل قرار دے دیتی ہے۔کارل مارکس نے کہا تھا کہ:
” ریاست کا آخری ہتھیار محض اس کے دستانے اُتار دینے سے سامنے آجاتا ہے”
یعنی فوج۔ ہمارے لبرل دوست اسی ریاست کو سمجھانے کی کوشش روزانہ اخبارات میں کرتے رہتے ہیں لیکن ریاست نے کراچی آپریشن اسی لیے کیا تھا کہ ایم کیو ایم کا کراچی پر آہنی کنٹرول توڑ دے کیونکہ ایم کیو ایم کا یہ کنٹرو ل اب سرمائے کو آگے بڑھانے کے رستے میں رکاوٹ بننے لگا تھا۔ ایم کیو ایم کا یہ کنٹرول وقتی طور پر ٹوٹ بھی چکا ہے۔ ریاست اب پیچھے ہٹ کے دوبارہ سیاسی عمل بحال کرنے پر گامزن ہو چلی ہے۔ اس کا ایک بڑا اظہار ایم کیو ایم کے مئیر کا انتخاب ہے۔ ظاہر ہے بحالی کا عمل بھی ریاستی عمل کی طرح کوئی یکسو اور صراط مستقیم پر چلنے والا عمل تو ہوتا نہیں۔ پیچ و خم اور منازل ورہنما تو آتے جاتے رہیں گے ہی۔
الطاف حسین کا خطاب اسی لیے ریاست کے ردعمل سے سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی ریاست نے اس خطاب کو ایک اعلان جنگ کے طور پر لیا۔تین سالوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے جس طرح ایم کیو ایم کو کچلا گیا ہے اس سے الطاف حسین کو شدید دھچکا لگا ہے۔ تین سالوں میں باقی ایم کیو ایم تو اِدھر اُدھر ہو گئی مگر الطاف حسین کیونکہ ملک سے باہر ہیں اس لیے اِن کے لیے کوئی بہت بڑی پوزیشن لینا آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے ، فوج کو مغلظات ، ریاست کو توڑنے اور انڈیا سے مدد مانگے کی جانب یہ گامزن ہو گئے۔ الطاف حسین نے اپنی پوزیشن واضع کر دی ہے۔ پاکستان سے علیحدگی میں ہی کراچی کے اردو بولنے والے مہاجر عوام کو نجات مل سکتی ہے۔ یعنی یہ کہ ایم کیو ایم سیاست کے بجائے ایک گوریلا جنگ کو اپنانے پر گامزن ہو جائے۔ مگر ظاہر ہے ایم کیو ایم کھاتے پیتے پیٹی بورژوازی – لوئیر و مڈل کلاس کی جماعت ہے ۔ گوریلا جنگ اِن کے پاس سے نہیں گزری۔ اور یہی وجہ ہے کہ مڈل کلاس قیادت الطاف حسین کی پوزیشن سے اپنے آپ کو دور کر رہی ہے تا کہ ریاست کے جوابی حملے سے بچ جائے۔
الطاف حسین نے یوں پاکستانی ریاست کو بہت بڑا چیلنج دے دیا ہے۔ اندرونی کمزوری جیسے مذہبی دہشت گردی کو فروغ دینا کو استعمال کر کے، اِسے دنیا کے لیے ناسور قرار دے کر ،اپنی قوم کی نجات کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی ریاست کا ردِعمل بتا رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کار ی کے رستے میں شہری لوئیر مڈل کلاس ہو یا دیہی غریب پشتون یا بلوچ یا باغی سرداریہ ریاست بہت بڑے پیمانے پر اِن پرتوں کو اِن کی اوقات یاد دلا کر ، ان سے اپنا پرانا کچھ لو کچھ دو کا رشتہ توڑ کر ، ماضی کے آلہِ کار کو کنارے لگا کر، اپنے سرمائے کو پھیلانے کے لیے فوج اور جنگ کے استعمال کو اب ناگزیر سمجھتی ہے۔
الطاف حسین نے بھی بظاہر اس چیلنج کو سامنے آکر قبول کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم کی طبقاتی کیفیت فی الحال کسی طور پر کسی بھی قسم کی گوریلا جنگ کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اسی لیے الطاف حسین کو تنہائی کا سامنا ہے۔ لیکن بہت جلد کسی عوامی ابھار کی صورت میں اِنہیں اپنی بات آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے نام سے اب نئی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ یہ کاریڈور کے نام پر ہرموثر مزاحمت کے خلاف جنگ ہے۔ اِس جنگ میں ہر جنگ کی طرح مختلف سیاسی و سماجی اکائیاں جو اپنا حق اور حصہ مانگتی ہیں انہیں فی الحال مذاکرات کے ذریعے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن بہت جلد یہاں بھی ریاست کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ البتہ بڑے شہروں میں شہری مسائل اس قدر خوفناک صورت اختیار کر گئے ہیں کہ یہاں کسی بھی وقت عرب انقلاب کی طرح عوامی بغاوت اور د اِ س سے پیدا عوامی انقلاب کو کچلنے کی صورت میں داعش جیسی تنظیموں کا ابھار عین ممکن نظر آتا ہے۔
پاکستانی ریاست کے اولین دشمنوں میں انڈیا ہے۔انڈین کشمیر میں ہی لاکھوں عوام کی بھرپور عوامی تحریک چل پڑی ہے۔ پاکستانی ریاست بھی اس سے خوفزدہ ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ عمومی ابھار کسی شہر یا ملک میں نہیں پورے خطے میں ابھرتا ہے۔ اب میں یہ نہیں کہہ رہا کہ الطاف حسین کا اس قسم کے ابھار میں آگے آنے کا ارادہ ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسا ابھار اگر ناکام ہو جائے تو مختلف قسم کی پرتیں اپنے اوپر ریاستی گرفت کو کمزور پاتی ہیں اور بغاوت پر اُتر آتی ہیں۔ اِس کی سب میں بڑی مثال آجکل شام ہے۔ جہاں ایک خوفناک آمریت کے خلاف عوامی ابھار ناکام ہوا تو اس کی اوٹ میں کئی پرتیں ،جن میں مڈل کلاس اور لولے لنگڑے مزدور و چھوٹے کاروباری بھی شامل ہیں، وہ ریاست کو چیلنج کرنے لگے۔ اس کی ایک اور بڑی مثال ترکی ہے جہاں کُردوں اور آرمینائیوں نے مختلف جابر ریاستوں کے خلاف ایک ساتھ اپنی جنگ تیز کر کے کہیں سامراج کی مدد سے تو کہیں اس کے علاوہ کامیابیاں حاصل کر لیں۔ یوں عوامی بے چینی سماجی نہیں توکم ازکم ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا محرک بن جاتی ہے۔
ٍٍ ایک جانب اِس وقت پاکستانی قوم پرستی شہروں میں عروج پر ہے۔ دو دہائیوں کی خوفناک جنگ کے بعد عام شہری ترقی کے ہر ریاستی اشارے کو امن و سکون کی کنجی مان کر ہلالی پرچم اٹھائے پھرتا ہے۔ ایک معمولی کرکٹ میچ میں معمولی جیت کو یہ میڈیا کی زبان میں شاہین کی پرواز مان لیتا ہے۔ ملک میں کھیل کی زبوں حالی کو جانتا ہے مگر اِسے نظر انداز کر کے ایک اور جیت کی امید میں ٹی وی سے جڑ جاتا ہے۔ دوسری جانب اِسے ہر طرح کی جنگ کو اپنی بقاءمان لینے پر رضا مند کیا جاتا رہتا ہے۔ کالج کا پروفیسر ہو یا عدالت کا وکیل یہ دہشت گرد بم حملے میں ہلاک ہو تو ریاست کہتی ہے کہ یہ ملک کے دفاع میں شہید ہوا۔ مڈل کلاس کی اچھی خاصی پڑھی لکھی پرت اسے ملکی دفاع ہی تصور کر کے اساتذہ اور وکلاءکے لیے مفت ہتھیار کا مطالبہ کرنے لگتی ہے۔ یوں ریاست جنگ کو چاہتے نہ چاہتے پھیلاتی جا رہی ہے۔ اس خطے میں بھی جنگ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ افغانستان کی جنگ پورا پختونخوا برباد کر چکی ہے، اس کی تپش کراچی تک آتی رہتی ہے۔پھر بلوچستان میں وسائل کی لوٹ مار اور بے دخلیوں کے لیے ترقی کے عمل کے خلاف ایک چھوٹے پیمانے کی گوریلا جنگ ہی توہو رہی ہے۔ اور آپریشن ضرب عضب کو جس طرح کراچی میں پھیلایا گیا اس سے واضع ہے کہ ریاست دہشت گردی کو محض پشتو بولنے والوں کا عمل نہیں سمجھتی ۔
پاکستانی سرمایہ دار اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس ملک میں سرمایہ کاری کے لیے فوجی آپریشن ساتھ ساتھ چلتے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ جو باقی پرتیں اقتدار میں شراکت کرتی رہی ہیں ان کی گنجائش اب کم ہے۔ لاہور میں میٹرو ہو یا کراچی کی لیاری ایکسپریس وے اس میں جس طرح نچلے کاروباری، چھوٹے کاروباری اور عام شہری کو روندا جاتا ہے یہ اقتدار میں اسی قسم کی شراکت کو بزورِ طاقت کم کرنے کا اظہار ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کے ایشو کو کچھ روزگار دے کر دبانے کی کوشش کی گئی ہے-اور جو نہ مانے انہیں گمشدہ کر کے باقی کودہشت زدہ کر دیا گیا ہے ۔ کراچی میں لوئر مڈل کلاس کی ترجمان ایم کیو ایم کی سیاست پر گرفت جنرل مشرف کے دور سے کمزور ہو چکی۔ریاست کے اندر ریاست تب ہی بنتی ہے جب ریاست خود عوام کی خواہشات کی ترجمانی کرتی نظر نہ آئے، یہ ریاست کے اندر ریاست ایم کیو ایم جیسی لوئر مڈل کلاس کی پرت قائم کر لے تو یہ بالاطبقہ سے سمجھوتہ کر کے اپنے سے نچلی پرت کو لہو لہان کر کے ہی بالا دست رہ سکتی ہے۔لیکن اگر بالا طبقہ کے لیے یہی خونریزی مسئلہ بن جائے تو یہ روش بدلتے ہیں۔ کراچی میں بے پناہ اموات کا سلسلہ جب 2008ء میں شروع ہوا تو ایک ہی سال میں بڑے سرمایہ دار جیسے قاسم تیلی یہ کہنے لگے کہ کراچی کو ایک سیاسی قوت نہیں بلکہ تین سیاسی قوتیں کنٹرول کر سکتی ہیں۔ اے این پی لوئر مڈل کلاس پختون کو ایم کیو ایم کے قاتل اسکواڈ کے سامنے زیادہ دیر کھڑا نہ کر سکی، پھر ذوالفقار مرزا اور لیاری گینگ ابھرے (جن کے اسباب مختلف تھے) لیکن ریاست نے انہیں بھی شہر پر کنٹرول کی لڑائی میں استعمال کیا، پھر عمران خان کو مڈل کلاس کی حمایت الیکشن 2013ء کی طرح ملی- مگر یہی مڈل کلاس لوئر مڈل کلاس کے ایم کیو ایم علاقوں میں اپنی تنظیم بنانے سے ڈرتی رہی اور پھر ان کا کردار این اے 92 کی شکست میں ختم ہوا۔ یوں براہِ راست فوجی آپریشن کرنا پڑا اور اب ایم کیو ایم کو توڑنے تک آن پہنچے۔
پاکستان میں معاشی عدم برابری، طبقاتی تفریق، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آئے دن ایک بہت خونریز صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں عام انسانی رویے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک جانب اموات کا ڈھیر لگتاہے تو دوسری جانب شہروں کی رونقیں چند گھنٹوں میں بحال ہو جاتی ہیں۔ سرمایہ داری جنگ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے مختلف پرتیں پرانی روش پر چلنے کی کوشش میں ریاست سے مڈبھیڑ میں آرہی ہیں۔ الطاف حسین نے بھی ایسی ہی مڈبھیڑ میں اپنے رستے کا انتخاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایم کیوایم یا الطاف حسین کے پاس ریاست کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے کا کوئی حل نہیں، یہ محض ریاست کی ترتیب نو چاہتے ہیں اور ان کی طبقاتی پرت کی پوزیشن کا تقاضہ ہے کہ یہ کبھی ریاست کے آگے جھک کر اور کبھی اس پہ پشت سے وار کر کے ہی اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ ریاست کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی حل نہیں۔اس جنگ کو روکے بغیر یہ ممکن نہیں کہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کو روکا جا سکے، کروڑوں کی بے سروسامانی کے رستے میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔اور یہ کام لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس نہیں کرے گی۔ دنیا بھر میں جنگ کی مخالفت جنگ کا شکار افراد ہی کر سکتے ہیں۔ سرمایہ دار جنگ کے حامی ہیں تو ان کی مخالفت وہی کر سکتے ہیں جوسرمایہ داری کے لیے منافع پیدا کرتے ہیں یعنی مزدور طبقہ ۔لیکن مزدور طبقہ جنگ کی بھرپور مخالفت میں آگے آکر ریاست کے خلاف نبرد آزما کئی اور پرتوں کو ساتھ ملا سکتا ہے اور ان کی بالا دست طبقہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کی روش کو پسپا کر کے ایک پائیدار امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس