کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اگست 1986 میں ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا اور ٹھیک تیس سال بعد 22 اگست 2016ء کی دوپہر ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین نے لندن سے ٹیلیفونک خطاب کے دوران کراچی پریس کلب کے سامنے لگے ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں جمع اپنے مردوزن کاکنوں سے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے۔ اپنے طویل و لایعنی خطابات کو الیکٹرانک میڈیا پر نشر نہ کرنے اور پرنٹ میڈیا میں شائع نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو حکم دیا کہ میڈیا کو اس بے ادبی کا مزہ چکھا دیا جائے۔ کارکنوں نے (حیران کن طور پر خواتین کارکنوں) میڈیا کو سبق پڑھانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے تین بار ’’بسمہ اللہ‘‘ کہہ کر اذنِ عام عطا فرما دیا۔ قبل ازیں اپنے خطاب کے دوران الطاف حسین نے پاکستان کو دنیا کے لئے ناسور قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ پاکستان دہشت گردوں کا ایدھی سنٹر ہے‘‘۔ ان کے اس تاریخ خطاب میں پاکستان کے بعض اداروں (فوج اور رینجرز) کے لئے جو زبان استعمال کی گئی وہ حیران کن اس لئے نہیں کہ ’’بھائی‘‘ پچھلے چند سالوں سے اسی طرح کی گفتگو فرما تے ہیں۔ ’’خاص حالت‘‘ میں اپنے خطاب کے دوران وہ اخلاقیات و تہذیب کو جس طرح جوتے مارتے ہیں یہ شرف ان سے زیادہ کسی کو حاصل نہیں۔ 22 اگست کے ان کے تاریخی خطاب کے بعد ریاست اور ایم کیو ایم کے درمیان پیدا ہونے تنازعہ پر ٹوپی ڈراموں کے ذریعے بظاہر فی الوقت قابو پا لیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس خطاب نے تہذیب و تمدن، اخلاقیات اور وطن دوستی کے حوالے سے جس بحث کے دروازے کھول دئیے ہیں اس کی بازگشت بہت عرصے تک سنائی دے گی۔ تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے اس طالب علم کی رائے بہر طور یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیو ایم کے درمیان تنازعہ کے جس حل پر اتفاق ہوا ہے اس کی ناؤ پار نہیں لگے گی۔ اور دونوں کے درمیان تصادم ملتوی تو ہوا ہے دیرپا امن کا سمجھوتہ نہیں ہوا۔
جناب الطاف حسین کے اس تاریخی خطاب پر دو آراء ہیں۔ ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا۔ پاکستان دہشت گردوں کی جنت ہے۔ اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اس کی کڑیاں بالآخر پاکستان سے ہی ملتی ہیں۔ تائید بھرے اس مؤقف کے حامی درجنوں مثالیں پیش کرتے ہیں۔ دوسری رائے کے حاملین اسے کھلی غداری قرار دیتے ہوئے الطاف حسین کی تقریر اور بھارت کے یومِ آزادی پر بھارتی وزیراعظم کی تقریر میں مماثلت پیش کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ (الطاف حسین) بھارت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعض رہنما خصوصاََ لندن میں مقیم رابطہ کمیٹی کے ارکان کہتے ہیں کیا غلط کہا قائد تحریک نے۔ حرف حرف درست ہے۔ دوسرے ہی لمحے ارشاد ہوتا ہے کہ قائدتحریک اپنے بیان پر حکومت اور عوام سے معافی مانگ چکے ۔ اب بات ختم کر دینی چاہیے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ الطاف حسین کی پچھلے تین سالوں میں پندرہویں معافی ہے۔ یعنی سالانہ اوسط کے حساب سے وہ ہر سال کم از کم پانچ بار اسی طرح کے ارشادات کے موتی رولتے ہیں اور پھر معافی طلب کر کے پوتر ہو جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم بنیادی طور پر 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے نتیجہ میں ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین خصوصاََ اردو بولنے والے مہاجرین کے اس حصہ کی جماعت ہے جو سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں قائم ہوئی مہاجر قومی موومنٹ کا الطاف گروپ ہی اب متحدہ قومی کی شناخت رکھتا ہے۔ اور بلاشبہ اب اس جماعت میں پاکستان کی دیگر قدیم قومی شناختوں کی حاملین اقوام کے سیاسی کارکنان بھی شامل ہیں۔ مگر ان کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ پاکستان بنانے والے مہاجرین کی اولاد ہیں جو ہجرت کر کے آئے اور مہاجرین کے مسائل و محرومیوں کی وجہ سے یہ جماعت بنی۔ مہاجرین کے مسائل و محرومیوں کا عالم یہ ہے کہ 1947ء کے مہاجرین کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم ہیں۔ ان کے برادرِ خورد پاکستان کی 63فیصد آبادی والے صوبے کے تیسری بار وزیراعلیٰ ۔ پاکستان کے موجودہ صدر بھی مہاجر ہیں جبکہ دو سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی مہاجر تھے۔ ان میں جنرل ضیاء الحق لگ بھگ گیارہ سال وردی میں صدر اور آرمی چیف رہے۔ پرویز مشرف بھی تقریباََ نو سال صدر رہے۔ خان لیاقت علی خان کے بطوروزیراعظم عرصہ اقتدار کا حساب اگر شامل کر لیا جائے تو حساب مزید نکھر کر سامنے آجائے گا۔ لیکن اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔
عمومی طور پر ہمارے مہاجر بھائی دو باتیں بہت ذوق و شوق اور رعونت سے کرتے ہیں۔ اولاََ یہ کہ مہاجرین تہذیب و تمدن کے وارث اور متحدہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ثانیاََ ان کے بزرگوں نے پاکستان بنایا۔ کیا بہت ادب و احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کیا جا سکتاہے کہ برصغیر کے بٹوارے کے بعد وہ مختلف علاقوں سے اٹھ کر جس پاکستان میں آن بسے یہاں ان کی آمد سے قبل جہالت کی دھول ہرگز نہیں اڑتی تھی اور نہ ہی اس خطے کے لوگ تہذیب و تمدن کی شروعات سے قبل کے اس دور میں قیام پذیر تھے جو زندہ رہنے کا مقصد فقط غذا کا حصول سمجھتے تھے۔ موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود پانچ قدیم تہذیبوں کی سرزمین ہے۔ ہاکڑہ، موہنجوداڑو، ہڑپہ، گندھارا اور ملتان۔ ان پانچ میں سے چار تہذیبوں کا عرصہ چار سے چھ ہزار سال کا ہے۔ ملتان اس خطے کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک شہر اور تہذیبوں کی زندہ نشانی کے طور پر آج بھی زمین کے اوپر موجودہے۔ ہاکڑہ تہذیب موہنجوداڑو کی تہذیب سے دو ہزار سال قبل کے زمانہ کی ہے۔ برصغیر کے جن علاقوں سے ان مہاجر بھائیوں کے بزرگ ہجرت کر کے تشریف لائے ان علاقوں میں سے اکثر کی تہذیبی زندگی کتنے ہزار سال ہے؟ مگر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ خود اردو زبان کی بطور زبان زندگی کتنی ہے؟ ابھی اس بات کو دو صدیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جب اردو کو مسلمانوں (بھارت میں رہ جانے والے علاقوں کے) پنجابی کو سکھوں اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان کا درجہ دیا گیا۔ پاکستان بنانے اور نخوت کے ساتھ یہاں کے مقامی زمین زادوں پر تہذیب و تمدن اور علم و شعور سے محرومی کی پھبتی کسنے والے ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے۔
پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کی جنم بھومی ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش کا دارالحکومت) ہے اور قیامِ پاکستان کے لئے پہلی قرار داد متحدہ ہندوستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں منظور ہوئی۔ پاکستان کے حصے میں 1947ء میں جو علاقے آئے سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مسلمانوں کی ہی اکثریت تھی۔ ہمارے ان مہاجر بھائیوں کے بزرگوں نے برصغیر کے بٹوارے کا جو خواب دیکھا اور جس طور تعبیر حاصل کی ہر دو پر اگر اس وقت کے زمینی حالات کی روشنی میں بحث اٹھائی جائے تو کئی دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔ مگر اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان بن گیا۔ 1971ء میں دولخت ہوا۔ اب جس حال میں بھی ہے یہ ہم سب کا وطن ہے۔ موجودہ پاکستان کی پانچوں قدیم قومیتوں سندھیوں، بلوچوں، سرائیکیوں، پشتونوں اور پنجابیوں نے اپنی قدیم قومی شناخت سمیت پاکستان کو قبول کیا۔ برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کی یہ اقوام اگر پاکستان میں شمولیت پر رضا مند نہ ہوتیں تو قیام پاکستان ایک خواب ہی رہتا۔ سو فقط ایک طبقے کا یہ دعویٰ کہ ہم پاکستان بنانے والوں کے وارث ہیں تاریخی طور پر بے بنیاد ہے۔ لاریب پاکستان میں 69 سالوں کے دوران وہ قومی جمہوریت قائم نہ ہو سکی جو ایک فلاحی جمہوری مملکت کے طور پر پاکستان کی اقوام عالم میں شناخت بناتی لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ کلی طور پر نہ تو کوئی قومیت ظالم ہے اور نہ مظلوم۔ ساری قوموں کے بالادست طبقات کا 69 سال سے اتحاد قائم ہے۔ بدقسمتی سے مظلوموں کا اتحاد معرض وجود میں نہیں آسکا۔ مظلوموں کے دشمن سانجھے ہیں۔ افسوس کے ہر مظلوم اپنے ظالم کو مسیحا اور دوسرے کے ظالم کو ظالم قرار دیتا ہے۔ یقیناََ کراچی چلیں یوں کہہ لیں کراچی کے اردو بولنے والوں پر بہت مظالم ہوئے۔ لیکن حضور پچھلے تیس سالوں کے دوران اٹھارہ ہزار ایسے کراچی والے بھی قتل ہوئے جو غیر اردو بولنے والی نسلی اکائیوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا قاتل کون ہے؟ مخالفین کو تڑپا تڑپا کر مارنا، زندہ انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشین سے سوراخ کرنا، مہاجر قومی موومنٹ کا اعزاز یہی ہے جو اب متحدہ قومی موومنٹ کہلاتی ہے۔ مکرر عرض ہے شکایات کے دفتر کھولنے کا فائدہ نہیں ورنہ ایک سادہ سا سوال بہت ادب سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ 1947ء کے مہاجرین میں سے جو سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئے انہوں نے خود کو سندھ کی قدیم تہذیب و تمدن اور ثقافت سے فاصلے پر کیوں رکھا؟ معاف کیجئے گا تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور 69 برسوں سے دونوں ہاتھوں سے ہی بج رہی ہے۔ کیا ہم یہ بات بھول جائیں گے کہ کراچی کو اردو بولنے والوں کے الگ صوبے کی شناخت دینے کا پہلا مطالبہ 1954ء میں ہوا تھا۔ یہ مطالبہ ہی سمجھاتا ہے کہ نفرت و تعصبات کا دروازہ کس نے کھولا۔ ریاست اور اداروں یا بالادست طبقات سے شکایات کس کو نہیں؟ ہم سب کو ہیں تو کیا ان شکایات کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگ جائیں؟ جی نہیں شکایات کے ازالے کے لئے جدوجہد شرط ہے۔ بدقسمتی سے ایم کیو ایم دھونس اور بلیک میلنگ کی کمائی پر یقین رکھتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زبان دوسروں کے منہ میں بھی ہے اس لئے بات کرنے سے قبل سوچ لینا ضروری ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn