ہمارے ملک میں اللہ سبحانہ و تعالی کے بعد (خاکم بہ دہن )مولوی طاقتور ترین ہستی ہے۔جس علاقے میں جس مسلک کا مولوی طاقتور ہے وہاں کے لوگ اسی مسلک کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔لوگوں کی اکثریت اندھی تقلید اختیار کرتی ہے ۔اس اندھی تقلید میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں اور اکثر ہی مولوی صاحبان کے ہاتھوں زیادتی یا ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں ۔ اگر ایسی کوئی متاثرہ خاتون پولیس کے پاس جائے تو پولیس پہلے اپنا حصہ وصول کرتی ہے پھر مقدمہ درج ہوتا ہے۔۔۔اگر کوئی لڑکی گھر والوں کو بتائے کہ اسے اس کے استاد کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہےتو لڑکی کوجھوٹا اور استاد کو سچا مانا جاتا ہے یا پھراس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کا تعلیمی سلسلہ بند کروا کر کسی نکمے سے شادی کی صورت میں عمر قید بھگتنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ نسخہ زیادہ کامیاب ہے کہ جلد از جلد لڑکی کو کسی کے بھی پلے باندھ دو تاکہ اب عزت داغدار ہونے سے ظاہراََ بچی رہے۔ہمارے ملک میں تو ویسے ہی لڑکیاں بہت مشکل سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ کہیں رشتے دار بھیڑیوں کا روپ اختیار کرتے ہیں تو کہیں راہ چلتے لوگ اور رہی سہی کسر کچھ کرپٹ اساتذہ کرام اور مولوی حضرات پوری کر دیتے ہیں۔مولوی اور یونیورسٹی اساتذہ جو حال کرتے ہیں بچیوں کا وہ یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ہر چوتھے دن کوئی متاثرہ بچی شرمندہ شرمندہ اور والدین روتے پیٹتے آتے ہیں کہ یہ حاملہ ہو گئی ہے اب ہماری عزت کا سوال ہے۔اس استاد اور مولوی کو ذرا حیا نہیں آتی۔ پتا نہیں کتنے لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کر چکے ہیں اور پھر قران سناتے نہیں تھکتے ۔لڑکیوں کا معاملہ تو رہا ایک طرف ہر چند روز بعد کہیں نہ کہیں کہ خبر ہوتی ہے کہ فلاں مسجد کا مولوی کم سن بچے کے ساتھ بدفعلی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ قرآن پڑھاتے اور احادیث کا درس دیتے ایسے لوگوں کو ذرا شرم محسوس نہیں ہوتی ۔اسلام میں اخلاقیات سب سے پہلے آتی ہیں اور ہم ان کو آخری درجے پر بھی رکھنا پسند نہیں کرتے اور ستم کہ پھر اسلام کا پرچار کرتے بھی نہیں تھکتے۔شکلِ مومناں کرتوت کافراں کا فقرہ شائد نہیں یقیناََ ایسے ہی گھٹیا اخلاقی معیار کے حامل اساتذہ اورخصوصاََ مولوی صاحبان کے لئے دریافت کیا گیا ہو گا۔ ہماری بچیاں نہ دینی ادراوں میں محفوظ ہیں اور نہ دنیاوی اداروں میں آخر ہم کہاں لے جائیں اور کیا کریں۔۔علم بھی ضروری ہے اور درندوں سے بچانا بھی لازم ہے ۔اس کا ایک ہی حل ہے کہ
یا تو ساری عورتیں ایک بار ہی مار دو اور پھر پوری روئے زمین پر دندناتے پھرو یا ان کو بھی انسان سمجھو آور جینے کا حق دو۔۔۔
اس محترمہ کو چاہئیے تھا کہ جب پہلے دن نام نہاد مولوی گھمن نے گاڑی میں بچی کے ساتھ نازیبا حرکت کی تھی تب ہی جوتا اتارتی اور مار مار کے مولوی کا بھرکس نکال دیتی اور اسے وہ سبق سکھاتی کہ ہزاروں لوگ توبہ کرتے۔اگر ہمت کر کے ایسا کر دیتی تو اسلام کی عزت تار تار کرتے مولوی کے جرائم پر پردہ ڈالنے کو کوئی دوسرا مولوی یہ کہتا نظر نہ آتا کہ بی بی خاموشی اختیار کرو اور صبر کرو۔ شور کرو گی تو اپنے ہی مسلک کی بدنامی ہو گی اور دوسرے مسلک والوں کے ہاتھ ہمارے مسلک کو بدنام کرنے کا ایک بڑا موقعہ آ جائے گا۔پر ہمارے ہاں عورت جتنا بھی پڑھ لے، کما لے، اسے کمزور ہی تصور کیا جاتا ہے اور خاندان کی ساری عزت غیرت اسی کمزور سی عورت کے دوپٹے میں سمٹ جاتی ہے اور اس کا نحیف وجود سارے خاندان کی عزت کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے قبر میں جا پہنچتا ہے۔۔۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn