آج کرۂ ارض پر اربوں انسان موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنے مزاج، فطرت اور ضرورت کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔ زیادہ تر انسان کھاتے پیتے، افزائشِ نسل کا حصہ بنتے ہیں اور پھر مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسانوں کے اِس ہجوم میں ایک خاص طبقہ اولیائے اللہ کا ہوتا ہے، یعنی اللہ کے مومن بندےاور دوست۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ترجیحِ اول صرف اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ یہ لوگ اِس رنگ برنگی کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی چُنتے ہیں، اُس کی ہی اطاعت کرتے ہیں۔ مختلف عبادات، مجاہدات اور تزکیۂ نفس کے کٹھن سفر سے گزرنے کے بعد، ظاہری و باطنی پاکیزگی اور طہارت کے ساتھ خود کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتے ہیں۔ پھر مالکِ کائنات ان کی محبت و اطاعت سے متاثر ہو کر ان سے محبت فرمانے لگتا ہے۔ یہ اللہ کی عنایات پر خوش، اور اللہ ان سے راضی ہوتا ہے۔ وہ اپنے خدا کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں، اور پھر انعام کے طور پر خدائے بزرگ و برتر ان کی کوئی بات نہیں ٹالتا۔
جب خدا ان سے راضی ہوتا ہے، تو وہ ہواؤں، فضا اور کائنات کی مخفی قوتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے ان بندوں کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کے قلوب ان کے لیے مسخر کر دیتا ہے۔ یہی وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیائے اللہ کہا جاتا ہے۔ یہ خالقِ بے نیاز کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں۔ دنیا اور دنیاداری کے تقاضوں سے بے نیاز یہ مقدس لوگ زمانے بھر سے نرالے اور الگ ہی نظر آتے ہیں۔ عام لوگ جن غموں پر ہلکان ہوتے ہیں، یہ اللہ کے مومن بندے انہی غموں کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ زندگی کی آزمائشوں میں جہاں عام لوگ ڈگمگا جاتے ہیں، وہاں یہ ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔
یہی وہ عظیم لوگ ہیں جو ساری عمر خاک نشین رہے، لیکن تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئے۔ جو بے نشان رہے، ان کے آستانے بنے۔ یہی خاک نشین ہمسایۂ جبرائیل بنے۔ انہی کی جھونپڑیوں میں کبھی چراغ بھی نہ جلتا تھا، لیکن ان کی قبروں سے نور کے چشمے ابلتے ہیں۔ جن کے پاس کبھی دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی تھی، آج لاکھوں بھوکے ان کے نام پر پلتے ہیں۔ یہی لوگ کبھی ٹھنڈے پانی کو ترستے تھے، لیکن آج لاکھوں پیاسوں کی جسمانی اور روحانی پیاس بجھاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ جو ساری عمر محروم التفات رہے، لیکن آج سب کے مرکزِ توجہات ہیں۔
دنیادار اقتدار کے دستر خوانوں کے پیچھے بھاگتے رہے، یہ مٹی کے پیالوں پر راضی رہے۔ دنیادار ریشمی مسہریوں اور گداز بستروں پر بے خوابی کا شکار رہے، اور یہ بسترِ خاک پر میٹھی نیند کے مزے لوٹتے رہے۔ مادّہ پرست دولت کے حصول میں سرگرداں رہے، لیکن یہ خرقۂ فقرپر شاداں رہے۔ سارے زمانے سے الگ اور نرالے یہ لوگ، کانٹا کسی کو چبھتا تو تڑپ یہ اپنے جسم پر محسوس کرتے۔ پیاس کسی کو لگتی، ہونٹ ان کے خشک ہو جاتے۔ بھوک کسے ہوتی، ہوک ان کے دل سے اٹھتی۔ بیماری کسی کو جکڑتی، بے چینی انہیں ہوتی۔ مبتلائے درد کوئی ہوتا، آہیں ان کی نکلتی تھیں۔
زندگی کے مسائل کے صحرا، دلدلوں اور نوکیلی چٹانوں سے گزرتے ہوئے، آنکھ کسی کی دکھتی، نیند ان کی اڑتی۔ گمراہی کے سمندر میں کوئی غرق ہوتا، مصروفِ دعا یہ ہوتے۔ ٹھوکر کسی کو لگتی، چوٹ سے زخمی ان کا دل ہوتا۔ جو لوگ ان کو ٹھکراتے، دھکے دیتے، یہ انہیں گلے سے لگاتے۔ جو ان کی بے عزتی کرتے، وقت پڑنے پر انہیں اپنے پاس بٹھاتے۔ جو انہیں ذلیل و رسوا کر کے بستی بدر کرتے، یہ انہیں
اپنی آنکھوں پر بٹھاتے۔ جو ان کی شہرت خراب کرتے، یہ ان کی قسمت سنوارنے کی کوشش کرتے۔
یہ بھی پڑھیے: مست توکلی ؒ ۔۔۔۔۔بھیدِ زندگی پانے والا صوفی
انسانوں کے ہجوم میں یہ انوکھے، نرالے اور عجیب لوگ خدمتِ مخلوق کرتے ہیں، اور اجرت صرف خدا سے مانگتے ہیں۔ اللہ کے مومن بندے قدم فرش پر جماتے ہیں، لیکن خبریں عرش کی لاتے ہیں۔ مزاج قلندرانہ، دماغ سکندرانہ رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو شکر کی ایسی کیفیت کو جانتے ہیں جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہے۔ دورانِ زندگی بے شمار مشکل مراحل میں بھی یہ اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت و خوشنودی کی راہ سے ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتے۔ نسلِ انسانی کا یہی مقدس گروہ، جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی ہے، تو مالک کے اس احسان پر شکر ادا کرتے ہیں۔ اور جب آزمائش آتی ہےتواللہ کے مومن بندے خوشی سے صبر کرتے ہیں۔
انہی اولیائے اللہ کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ وہ سردارالانبیا ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جس نے میرے ولی کی اہانت کی، تو اس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا۔ اور میں کسی چیز کو کرنے والا ہوتا ہوں تو تردد نہیں کرتا، جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں، کہ میں اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا، لیکن اس سے چارہ بھی نہیں۔ میرے بعض مومن بندے ایک نوع کی عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کو اِس سے روک دیتا ہوں، تاکہ اس کے اندر عُجب نہ آ جائے اور وہ تباہ نہ ہو جائے۔ میرے بندے نے میرے فرض کی ادائیگی کے برابر کسی اور چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کیا۔ اور جب میرا بندہ نفل ادا کرتا رہتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کا کان، آنکھ، ہاتھ اور مددگار بن جاتا ہوں۔
وہ مجھ سے مانگتا ہے، میں دیتا ہوں۔ وہ مجھ کو پکارتا ہے، میں قبول کرتا ہوں۔ میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کے ایمان کو فقر و اخلاص ہی درست رکھتا ہے، اور اگر میں ان کو کشادگی دوں تو وہ تباہ ہو جائیں۔ میرے بعض بندے ایسے ہیں جنہیں بیماری ہی درست رکھ سکتی ہے، اور اگر صحت دوں تو وہ تباہ ہو جائیں۔ میں چونکہ اپنے بندوں کے احوالِ قلوب کا علم رکھتا ہوں، اس لیے اسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ میں علیم و خبیر ہوں۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اپنے اولیا کی مدد کے لیے سب سے زیادہ جلدی کرتا ہوں، اور ان کے واسطے غضبناک شیر سے بھی زیادہ غضبناک ہوتا ہوں۔ ایک اور ایمان افروز حدیث مبارکہ ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں: بیشک اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا لیں، تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور پورا کر دیتا ہے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، احمد)


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn