Qalamkar Website Header Image

تخلیق کار کو پابند نہیں کرنا

مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نفرت، تعصب،عدم برداشت، اور ایسے ہی دوسرے قابلِ مذمّت رویے ایک ساتھ جمع ہو کر فیس بک پر اپنا قبضہ جما چکے ہیں۔ یہ حال صرف ادبی معاملات ہی کا نہیں، سیاسی معاملات کا بھی ہے۔ اس وقت ایک واحد لفظ جو اس معاشرے کی مکمل اور واضح تشریح کر سکتا ہے وہ ہے ” تفریق” ۔
ہم تفریق میں پڑ چکے ہیں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا کسی بھی تخلیق یا تخلیق کار کو دیکھنے کا معیار کیا رہ گیا ہے ؟

ایک وقت ہوتا تھا جب کسی تخلیق کار سے محبت کرنے والے، اس کے سیاسی و مذہبی نظریات و عقائد کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ خواہ وہ ان سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں، اور یہ رویہ، ظاہر ہے ایک نہایت مستحسن ادب انگیز رویہ ہوتا تھا، اور یہ رویہ صرف فنونَ لطیفہ کے بارے نہیں، سیاسی نظریات تک کے بارے ہوتا تھا ۔ کچھ پیارے لوگ ابھی بھی اسی رویے کے ساتھ کتاب بینی، فلم بینی، موسیقی، یا دیگر فنونِ لطیفہ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اب خود کو غیر محفوظ تصور کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عدم برداشت کے رویے نے اس بہت پیارے کلچر کو ہی تباہ کر دیا ہے جو کسی شاعر کی شاعری پڑھتے وقت، یا کسی سنگیت کار کا گانا سنتے وقت ، اس کا سیاسی و مذہبی حسب نسب نہیں پوچھا کرتا تھا.آج کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ شاعر کو سیاسی نہیں ہونا چاہیے، سنگیت کار کو ، اداکار کو، لیکھت کو ، صرف محبت یا رومانی یا ہلکے پھلکے سماجی موضوعات کو ہی اپنا محور جاننا چاہیے۔ میں بصد احترام گذارش کرنا چاہوں گا کہ یہ خیال رکھنا در حقیقیت فاشزم کی ایک شکل ہے. اگر تخلیق کار کو پابند کر دیا جائے کہ تم ایسا ہی لکھو جو ہمیں پسند ہو ، اسی سُر کو شدھ کرو جو ہمیں سمجھ آتا یے تو معاشرے میں ارتقاء کا عمل ہی رک جائے گا ، اور یہ عمل رکا ہوا آپ دیکھ بھی سکتے ہیں ۔آج ہم لوگوں کی اکثریت وہی پڑھنا اور سننا پسند کرتی ہے جو ہم سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں ! اور ایک ایسا جمود اس معاشرے کو لاحق ہو چکا ہے جہاں صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  افتخار عارف کی صدارت میں ہونے والابہاریہ مشاعرہ کی روداد

ہمیں اپنے تخلیق کاروں کو پابند نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی تخلیق کار اپنے عہد یا اپنے سماج ہی کا سیاسی شعور نہیں رکھتا تو وہ ادبِ عالیہ سے کسی صورت مس نہیں کرتا۔ اور اگر وہ اپنی ایک رائے رکھتا ہے، جیسا کہ سب رکھتے ہیں اور وہ اس رائے میں غلط بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہو رہا ہے، یا نفرت کا سزاوار ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ میرا پڑھنے والا بھی اسی سیاسی و فکری نخلستان کا راہی ہو جہاں میرے خیال کے چشمے پھوٹتے ہیں، وہ کسی اور زمان کا شناور بھی ہو سکتا ہے اور کسی ایسے باغ کا بھی جس کا مجھے بھی پتا نہ ہو ۔
سو ہمیں اپنے رویوں میں کچھ نرمی لانی چاہیے، بات سننی چاہئیے، نہیں پسند آ رہی تو اس بات سے کنارہ کیا جا سکتا ہے، لیکن محض اس بات پر کہ کوئی تخلیق کار آپ کے ممدوح کا مداح نہیں ہے یا اس پر نکتہ چیں ہے تو یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ اسے کسی بھی طرح گالی، تہمت، یا الزام تراشی کے لائق جان لینا چاہئیے، اس کا فن ، محض اس کے آپ سے مختلف نظریہء فکر رکھنے سے یکسر باطل نہیں ہو جائے گا۔
کیونکہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہماری گفتگو اور مکالمہ ہی اس بات کی پہچان رکھتا ہے کہ ہم خود کون ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  ارفع کریم رندھاوا۔۔۔!!!

حالیہ بلاگ پوسٹس