اس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہاں ہمیشہ ہر کام، مذہبی روایات کے مطابق ہوتے دیکھا۔
دعا ایک بہت پاکباز لڑکی تھی۔خوبصورت چہرہ، بڑی آنکھیں ،گھنی پلکیں۔ معصومیت تو جیسے اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔دعا کے ہوش سنبھالنے تک، معاشرے میں بے حیائی و آوارگی بھی عام ہو چلی تھی۔
عزت، غیرت، شرم و حیا تو جیسے کہیں دفن ہو گئی تھیں۔ وقت نے ایسی بے رحم کروٹ بدلی کہ اس کے ہنستے بستے خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔اب وہ اپنے بڑے بھائی اور بھابھی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتی تھی۔زندگی کے اکیس سال میں اس نے شایدساٹھ سال کا تجربہ حاصل کر لیا تھا۔کبھی بھائی سے کچھ فرمائش نہیں کی تھی مگر دل میں ہزاروں ارمانوں کا گلا اس نے خود اپنے ہاتھوں گھونٹا تھا ۔بھائی کام سے آتے ہوئے اس کے لئے کچھ نہ کچھ لیتا آتا تھا۔اب وہ جوان ہو چکی تھی۔بھابھی نے ارد گرد ہمسائیوں میں رشتے کے لئے کہہ چھوڑا ۔کئی لوگ آئے بھی مگر غربت ، اسکی آنے والی زندگی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ بن جاتی۔ اگر کوئی پسند کر بھی جاتا تو جہیز کی فرمائش پھر آڑے آجاتی۔
اک روز بھائی اور بھابھی کے ساتھ وہ گاؤں میں لگا میلہ دیکھنے گئی۔وہیں اسکی نظر ،اک ناچنے والی عورت پر پڑ گئی جو نیم برہنہ لباس پہنے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ ساری رات وہ اسی بارے میں سوچتی رہی اگلے دن کام ڈھونڈنے کی غرض سے گھر سے باہر قدم رکھاتوسڑک پر کھڑے اسی عورت پر نظر ٹک گئی جو کسی آدمی سے بات کرنے میں مصروف تھی اور پھر شاید سودا طے ہو جانے پر اس کے ساتھ چلی دی۔اس کے قدم وہاں سے آگے نہ بڑھ سکے اور اس نے واپسی کا راستہ لے لیا۔سارے راستے وہ یہی سوچتی رہی کہ کس طرح ایک عورت اپنا سب کچھ محض چند روپوں کے عوض بیچ دیتی ہے۔اگلے روز وہی عورت پھر اسی سڑک پر اسے تنہا ملی۔دعا نے کچھ ہمت کی ، آگے بڑھی اور اسکے قریب جا کر سوال کر ڈالا۔پہلے تو اس عورت نے دعا کو نظر بھر کر دیکھا پھر اسے لے کر پاس پڑے اک بینچ پر بیٹھ گئی۔چہرے پر ہاتھ رکھاماتھے سے پسینہ صاف کیااور دعا کی طرف دیکھا۔
دعا اپنے جواب کے لئے بیتاب تھی کہ وہ بولی جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی عام انسانوں کی طرح معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔وہ انجینئیر بننا چاہتا ہے، ڈاکٹر یا پھر کوئی بزنس مین بننا چاہتا ہے۔ مگرکوئی ڈاکو بن جاتا ہے،کوئی چور ، کوئی لٹیرا تو کوئی عزتوں کا سوداگر بن جاتا ہے۔ بعض اوقات حالات بنت حوا کو اس مقام پر لے آتے ہیں کہ رات کی سیاہی میں اسے اپنا جسم اس گندے گناہوں سے سیاہ کرنا پڑتا ہے۔اپنی عزت کو چند روپوں کے عوض طوائف کا دھبہ لگائے ہزاروں مردوں کے سامنے طبلے کی تھاپ پر، سر بازار رقص کرنا پڑتا ہے اور پھر یہ ہمارا پیشہ بن جاتا ہے۔کوئی بھی عورت اپنے آپ کو کسی کے حوالے نہیں کرتی مگر پیٹ کی آگ، اسےایسا کرنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ کہہ کر بالی تو جانے کہاں چلی گئی مگر دعا سوچنے لگی کہ طوائف کا لفظ سن کر ہمارے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہیں، دماغ میں گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔بعض شرفاء تو فرطِ جذبات میں نادر القابات سے بھی نوازتے ہیں۔ نوجوان نجی محفلوں میں دوستوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے اور چٹکلے سناتے ہیں مگر طوائف کا انسان ہونا بہت کم لوگوں کو دکھائی پڑتا ہے۔ وہ بس ایک طوائف ہوتی ہے ،صرف اک طوائف۔
دعا عرف عاشی نے جیسے ہی اپنی بات ختم کی، اسکی آنکھوں سے آنسوں کی اک لڑی جاری ہو گئی۔ پانچ سال گزر گئے ،اب نہ اسے بھوک کی فکر تھی نہ جسم ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کی، اب اسکا جسم نذرانے کے روپوں سے ڈھکا رہتا تھا۔اب اسے بالی کی باتیں سمجھ آئی تھیں کہ جب رشتوں کا تقدس ختم ہو جائے، جب احساسِ کمتری کی بارش میں کچے گھروں کی بنیاد ہلنے لگے۔جب لفظ غربت ننھی خواہشوں کا گلا گھونٹنے لگے تب خواہشات کے پلڑے میں جسم تلنے لگتے ہیں۔جب عزت ،بے وقعت ہو کر رقاصہ کے تھرکتے پیروں تلے نوٹوں کو مسلتی ہے۔ ۔ پھر وہ ِ نازک جسم احساسات سے عاری ہو جاتا ہے۔خواہشات سے مغلوب، صرف اک بے جان جسم، جس پر کوئی نصیحت کوئی تبلیغ، اثر نہیں کرتی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn