Qalamkar Website Header Image

الازہر نے داعش کو کافر قرار دینے سے انکار کردیا- المانیٹر

al azharرپورٹ : احمد فواد
ترجمہ و تلخیص: محمد عامر حسینی

نوٹ: جامعۃ الازہر عالم اسلام کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک جامعہ ہے اور یہ کافی عرصے تک عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے رہنمائی کا سب سے مستند ادارہ رہی ہے –آج بھی اس درسگاہ میں شمالی افریقہ کے مسلم ممالک ، جنوبی ایشیاء کے مسلمان اور خود مڈل ایسٹ و وسط ایشیاء سے مسلم طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں- اہلسنت کے عظیم مفتی ، سکالر اور شریعت کورٹ کے جج پیر کرم شاہ بھی جامعہ الازہر سے پڑھے ہوئے تھے اور الازہر یونیورسٹی سے متاثر ہوکر انھوں نے بھیرہ سرگودھا میں تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی تھی –اس ادارے کی شاخیں کئی شہروں میں موجود ہیں-جبکہ الازہر میں عربی صرف و نحو ، ادب و تاریخ کے باب میں جو نصابی کتب پڑھائی جاتی ہیں ان کو کئی ہندوستانی اور پاکستانی مدارس عربیہ نے اپنے نصاب میں شامل کررکھا ہے-لیکن اس ادارے کی ” علماء کونسل ” کے جاری کردہ فتوؤں پہ تنقید بڑھتی جارہی ہے- بلکہ اس جامعہ کے ناقدین یہ بھی کہنے لگے ہيں کہ سعودی عرب کے اثر کے بڑھنے کی وجہ سے اس درسگاہ میں ” سلفی ” بہت طاقتور ہوگئی ہے-اور اسی لابی ک زیر اثر ایسے فتوے سامنے آنے لگے ہیں کہ جن سے تکفیری دہشت گردوں کو مدد ملتی ہے- جامعۃ الازہر کے مفتی اعظم احمد الطیب کی جانب سے داعش کا نام لیکر ان کو کافر یا مرتد قرار دینے سے انکار پہ یہ تنقید سامنے آئی ہے کہ اگر جامعہ الازہر بطور ادارہ یا اس کی علماء کونسل کے ارکان بطور علماء کونسل کسی کو کافر قرار نہیں دیتے تو پھر اسی کونسل یا دوسرے شعبہ جات کے مفتیان کے فتوؤں کی مذمت الازہر کو کرنی بنتی تھی جو اس نے نہیں کی-داعش کا نام لیکر اس کی تکفیر سے انکار کرنے والی جامعہ الازہر کا یہ فریضہ بھی بنتا ہے کہ اس کی علماء کونسل داعش کے مظالم کے خلاف بیان بھی جاری کرے-
———————————————————
مصر میں عالم اسلام کی سب سے قدیم درسگاہ الازہر یونیورسٹی نے 11 دسمبر ،2014 ء کو ایک فتوی جاری کرتے ہوئے داعش کو خارج از اسلام قرار دینے سے انکار کردیا –
” فتوی میں کہا گيا کہ کسی بھی شخص کو اس کے گناہوں کے سبب کافر قرار نہیں دیا جاسکتا-الازہر سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایک الجزائری مفتی نے دسمبر 4، 2014ء کو الازہر میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران داعش کو کافر تنظیم قرار دے ڈالا تھا-الازہر یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں الجزائر کے مفتی کا بیان ٹھیک پیش نہیں کیا گیا-
الازہر کے شیخ الجامعہ احمد الطیب نے جنوری2015ء کو داعش کو کافر قرار دینے کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر مسترد کیا جبکہ ان کی ملاقات مصری اخبارات کے مدیران سے ہورہی تھی –اس سے بہت سی مذہبی ، سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے الازہر پہ تنقید کی گئی کہ الازہر اس بات کو زیر غور لائے بغیر کہ وہ داعش کو کافر کہتا ہے یا نہیں الجزائری مفتی کے فتوے کی تردید کرسکتا تھا-
الازہر کے ترجمان عباس شمان کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جامعہ الازہر کے سب سے بڑے ادارے مجمع البحوث الاسلامیہ ( ہیئۃ الکبار العلماء ) نے آج تک کسی فرد یا گروپ کو اپنی پوری تاریخ میں مرتد قرار نہیں دیا-لیکن اس دعوے کو مرحوم عصری مصنف فرج فودہ جن کو تکفیری اخوانی تنظیم جامعہ اسلامیہ نے قتل کردیا تھا کی بیٹی ثمر فرج فودہ نے مسترد کرتے ہوئے کہا:
” مرے والد کا قتل جامعۃ الازہر کے شیوخ کی اکثریت کی جانب سے جاری کردہ فتوؤں کا نتیجہ تھا جس میں مرے والد کو کافر و مرتد قرار دیا گیا تھا-کیونکہ وہ سیاست اور مذھب کی علیحدگی پہ زور دے رہے تھے ”
ثمر فرج فودہ نے یہ بیان ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں دیا –
الازہر کے سب سے بڑے ادارے یعنی کونسل آف شریعہ ( مجمع البحوث الاسلامیۃ ) نے کبھی کسی شخص یا گروہ کو کافر قرار نہیں دیا- لیکن یہ بھی تاریخ ہے کہ آج تک الازہر نے ان الازہری علماء یا مفتیان کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھایا جنھوں نے تکفیر و ارتداد کے فتوے جاری کئے-
کئی نمایاں مفتیان الازہر نے کسی فرد یا گروہ کو مرتد یا کافر قرار دینے کے فتوے جاری کئے- جن میں الازہر کا سکالر فرنٹ ( جبھۃ العلماء الازہر ) جس کی سربراہی عبداغفار عزیز کے پاس تھی نے فرج فودہ کو یکم جون 1992ء کو مرتد قرار دیا-سکالر فرنٹ ایسے شیوخ جامعہ الازہر پہ مشتمل تھا جو کہ ریڈیکل خیال کئے جاتے تھے ہیں اور وہ صدر مرسی کو نکال باہر کرنے کے حامی تھے-غفار عزیز الازہر کے دو کلیات / کالجز کا ڈین تھا اور ان میں شامل تھا جو کہ الازہر یونیورسٹی کے لئے نصاب تیار کرتے ہیں-شیخ عبد ربہ مفتاح الازہر کے شعبہ تبلیغ (اللجنة العليا للدعوة الإسلامية)میں انسپکٹر تھا جس نے طہ حسین یسے ممتاز ادیب کے خلاف1926ء کفر کا فتوی جاری کیا تھا-مزید یہ کہ الازہر کے 20 کے قریب سکالرز کی کمیٹی نے نصر حامد ابو زید کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا-اور مطالبہ کیا کہ ان کو ان خیالات پہ سزا دی جائے جو ان کی تصنیفات میں نظر آتے ہیں-1995ء میں مصری عدالت نے ابو زید پہ ارتداد کا الزام دھرا اور زبردستی اس کی بیوی کے اس کے نکاح سے خارج ہونے کا اعلان کردیا-جس کے باعث دونوں میاں بیوی کو وہاں سے جلاوطن ہونا پڑا-
ثروت الخرباوی جو کہ اخوان مسلمون سے الگ ہونے والے رہنماء نے الازہر کے داعش کو کافر قرار نہ دینے کے فتوے کو داعش کے اقدامت پہ یقین رکھنے سے تعبیر کیا ہے-اور ایسا اس نے ایک ٹی وی پر ابراہیم عیسی کے ساتھ پروگرام کے دوران کیا-
ایک پریس رپورٹ میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ داعش اور الازہر کے نصاب تعلیم میں کافی مماثلت ہے جوکہ ایک تارک نماز کے قتل کا حکم دیتا ہے ، اس کے قتل کا بھی جو اسلام کو ترک کرتا ہے-جنگی قیدیوں اور اسلام کے کندر پائے جانے والے بے دینوں اور جو کسی خاص فقہ یا کلامی مذھب سے نہ وابستہ ہوں-اسی طرح قطع ید و پاؤں کا حکم بھی دیتا ہےاور کلیساؤں کی تعمیر پہ پابندی عائد کرتا ہے اور مسلمانوں کو مسیحی اور یہودیوں سے الگ کرتا اور ان پہ زلت مسلط کرنے کی بات بھی کرتا-
الازہر یونیورسٹی نے اگرچہ کئی وہابی متون پہ پابندی عائد کردی ہے جن میں شیخ ابن تیمیہ کی کتب بھی شامل ہیں لیکن الازہر کے حال میں دئے جانے والے فتوے نے کئی حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے- دعوۃ سلفیہ مصر کے علماء نے الازہر کے فتوے کی حمایت کی ہے-
الازہر کے اندر سے ہی بعض سکالرز اس فتوے کو الازہر میں سلفی لابی کے اثر و رسوخ میں اضافہ کا اثر قرار دیا ہے-
الازہر میں سلفی لابی کے بڑھ جانے کے ممکنہ مظہر کی تائید سعدالدین ہلالی پروفیسر تقابل فقہ جامعہ الازہر نے بھی کی ہے-
(احمد فواد مصری نژاد صحافی ہیں اور الشروق میڈیا میں اسٹنٹ نیوز مینجر کے عہدے پہ کام کرتے ہیں – وہ مصر میں اسلام پسندوں اور مصری کی سیاسی صورت حال پہ گہری نظر رکھتے ہیں)
دعوۃ سلفیہ نے اگرچہ الازہر کے حق میں بیان جاری کیا ہے-لیکن اصل میں لازھر سے ان کے اختلافات بہت واضح ہیں- اس حوالے سے ایک وڈیو ٹیپ بھی لیک ہوئی تھی جس میں دعوۃ سلفیہ کے چئیرمین یاسر براہیمی سمیت کئی اور سلفی شیوخ شامل تھے – اس ویڈیو میں شیخ یاسر نے کہا کہ ان کی تنظیم آئين مصر 2012ء کا ڈرافٹ تیار کرنے والی اسمبلی میں شرکت تو کرنی ہے لیکن ان کی پوری کوشش ہوگی کہ الازہرکے مفتی اعظم احمد الطیب کو پہلی فرصت میں نکال باہر کرنے والی شقیں آئین میں شامل کرانے کی کوشش کریں گے-
ہلالی کا کہنا تھا کہ الازہر ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس کا کوئی بھی فتوی جاری کرنا ہے ،اس کا حق ہے-لیکن اسے چاہئیے کہ وہ تکفیر مسلم کو مطلق رد کرنے کا عمومی فتوی جاری کرے-اسے کسی خاص گروہ کا نام لے کر تکفیر کو رد کرنا مناسب نہیں ہے –اس طرح کے فتوے سے تو یہ لگتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کسی فرد یا گروہ کافر قرار دینے کا حق لے لیا ہے جو کہ کسی ایک کے پاس نہیں ہے –
http://www.al-monitor.com/…/azhar-egypt-radicals-islamic-st

حالیہ بلاگ پوسٹس