تاریخ کے طالب علموں کو یاد ہو گا کہ 20 جنوری 1981 کو ری پبلکن پارٹی صدر ریگن نے امریکی صدر کا حلف اٹھایا تھا اس کے پہلے غیرملکی مہمان پاکستانی صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق تھے۔ باہم ملاقات اور مذاکرات کے نتیجہ میں ’افغانستان‘ میں سوویت یونیئن کے خلاف اسلامی جہاد شروع ہوا تھا پاکستان کو چار ارب ڈالر کی امداد کے ساتھ اسلحہ کی فراہمی بھی ہوئی تھی۔ ابتدا میں یہ اسلحہ ان ممالک سے حاصل ہوا تھا جو اس سے پہلے سوویت یونیئن کے زیرِ اثر تھے یا پھر وہ سوویت اسلحہ کی مارکیٹ تھے… بعد میں یہ اسلحہ براہِ راست امریکا اور اس کے سرمایہ داری نظام کے اتحادیوں یورپی ممالک سے بھی آیا جو نیٹو معاہدے میں شامل تھے۔ نیٹو اتحاد کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا… نیٹو معاہدہ آج کل خطرے میں ہے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس پر تحفظات کا اظہار بھی کر چکے ہیں ان کا خیال ہے کہ معاہدے میں شامل ملک طے شدہ فنڈنگ نہیں کر رہے زیادہ بوجھ امریکا کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو امریکی معیشت کے تنزل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ نیٹو ممالک نے افغانستان میں فوجوں کی بھی کمی ک ردی ہے اور افغانستان کے دفاع کی ساری ذمہ داری اب امریکی جرنیل کے ہی پاس ہے… بہ ہر حال جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں سٹریٹجک ڈیپتھ کے نام پر جو ’اسلامی جہاد‘ شروع ہوا تھا اس کو خام مال کی فراہمی کے لیے پاکستان کی سیاسی بنیاد کو ہی تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایک طرف تو بنیادی مقاصد ہی نہیں نعرے بھی تبدیل کر دیے گئے تو دوسری طرف رواداری اور برداشت کی جگہ ’جہاد‘ کو نصابِ تعلیم کا اہم ترین ’جزو‘ بنا کر شامل کر دیا گیا… خام مال کی تیاری کے لیے مختلف دینی اور سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور گروہون کی سرپرستی کی گئی ان کے تربیتی مراکز بنائے گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب جنگجو گروپ اور ان کے سربراہ دولت اور اسلحہ سے مالا مال ہوئے وہ لیڈر جن کے پاس سائیکلیں نہیں تھیں وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں درجنوں مسلح محافظوں کے ساتھ گھومتے اور بڑے بڑے محلوں میں رہایش پذیر دکھائی دیتے… اسی زمانہ میں ہی افغانستان سے 40 لاکھ سے زیادہ مہاجروں کی بھی آمد ہوئی تو ان کے ساتھ کلاشنکوف کلچر کے ساتھ منشیات کی ریل پیل منافع میں حاصل ہوئی یہ مہاجرین کیمپوں تک محدود نہیں رہے، اور پھر گذشتہ دور میں انھیں پاکستان کی باقاعدہ شہریت بھی دی گئی۔ کوی شہر کوئی گاؤں افغانیوں سے خالی نہیں رہا۔ آج صرف لاہور میں افغانیوں کی بیس سے زائد علیحدہ بستیاں ہیں جب کہ بڑی بڑی کالونیوں میں صاحب ثروت افغانیوں کے محلات ہیں یہ وہ افغانی ہیں جو مختلف مارکیٹوں میں کاروبار کرتے ہیں اور یہ مارکیٹیں باقاعدہ پٹھان مارکیٹیں کہلاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ ان سے کچھ دہشت گردوں کے سہولت کار بھی ہیں۔
بہ ہر حال… آمدم بر سرمطلب، ایک تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ برادرانہ اسلامی تعلات کا یا پھر مذہب کی بنیاد پر سوویت یونیئن کے خلاف شروع کیے جانے والے جہاد کا سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑا ہے سوات کی بغاوت بھی ہوئی، لال مسجد کا سانحہ بھی ہوا، فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوئے۔ مسجدیں، امام بارگاہیں اور اقلیتوں کی عبادت گاہیں بھی خون سے رنگین ہوئیں مزاروں اور درگاہوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا فوجی تربیت کے مراکز اور انتظامی اداروں پر بھی بم پھینکے گئے خود کش حملوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ عوام کے جسم کے چیتھڑے بنا کر ہوا میں اڑائے گئے… پچاس ہزار سے زائد عوام اور فوجی جوان اس نظریاتی جنگ کا شکار ہوئے جو امریکا اور پاکستان نے سوویت یونیئن کے خلاف شروع کی تھی۔ بل کہ وہ جنگ جو امریکا اور سرمایہ دار ملکوں نے سوویت یونیئن اور کمیونزم کے نام پر وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل، گیس اور معدنی ذخائر پر قبضہ کے لیے شروع کی تھی… اور اس میں مذہب کو ہتھیار بنا کر انتہاپسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا تھا۔ مان لیجیے کہ اس جنگ میں سوویت یونیئن کو شکست ہوئی وہ منتشر ہو گیا، لیکن اس کے جو معابعد اثرات مرتب ہوئے ان کا سب سے زیادہ نقصان پڑوسی اور ایک فریق ہونے کی بنا پر پاکستان کو ہی ہوا۔
لیکن… یہ وقت اور حالات کا جبر بھی ہے کہ اب خود امریکا کو بھی اس کا سامنا ہے امریکا کے اندر بھی دہشت گرد کارروائیاں شروع ہو چکی ہی جن پر قابو پانا موجود معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام، انتظامی اور دفاعی ڈھانچے میں شاید یہ مشکل نہ ہو، لیکن اصل مسئلہ اس وقت افغانستان ہے جو امریکی مفادات کی ہندوستان کی مارکیٹ اور بین الاقوامی دیگر مارکیٹوں تک محفوظ ترسیل کا ہے جو افغانستان کے داخلی امن سے مشروط ہے جو ہنوز سالوں گذرنے کے باوجود خوشگوار اور پر امن ماحول میں تبدیل نہیں ہو سکا۔ افغانستان کے کئی صوبے ابھی تک امریکی گرفت میں نہیں آ سکے وہاں بیرونی مداخلت کے باوجود امریکا دشمن قابض ہیں مزید یہ کہ انتہاپسندی او دہشت گردی کو بنیاد بنا کر وسائل پر قبضہ کیا گیا تھا اس کا مظاہرہ کئی دہشت گرد اور خودکش حملوں کے ذریعے ابھی تک ہو رہا ہے حتیٰ کہ دارالحکومت کابل جس پر گرفت کا دعویٰ ہے وہ بھی اکثر نشانہ بنتا رہتا ہے۔ سرکاری عمارتوں اور سرکاری ملازموں کو ہدف بنا کر اپنے ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
حرفِ آخر کی صداقت یہی ہے کہ جن اقتصادی مفادات کے لیے امریکا نے اس خطے میں ہزاروں ٹریلین ڈالر خرچ کیے وہ ابھی تک تشنہ کام ہیں، جس انتہاپسندی کو فروغ دیا تھا وہی اس کی سب سے بڑی دشمن بن کر اس کے سامنے کھڑی ہے اس سے بچنے کا مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ جو نہ صرف افغانستان پر تسلط کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے بل کہ امریکی معیشت کی روزبروز تباہی کا شکار ہونے سے بچانے کے امکانات کو بھی معدوم کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پاکستان پر الزامات لگائے جاتے ہیں تو کبھی اس سے ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ تو کبھی پڑوسی ملکوں خصوصاً ایران، چین اور روس کے علاقائی کردار میں ابھرتے ہوئے اشاروں پر تنقید کی جاتی ہے… لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ صرف بوے ہوئے کو کاٹنے کا فطری عمل ہی نہیں مفادات کی وہ جنگ ہے جس میں سی پیک وہ محاذ ہے جس نے جنگ کی شدت مزید بڑھا دی ہے۔ اور امریکا کی علاقائی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات میں مشکلیں پیدا کر دی ہیں جو مستقبل قریب میں کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ امریکی تاجر اور تجارت اپنی کشتی ڈوبتی ہوئی محسوس کر رہے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn