قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم نے بہت پہلے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اکانومی کی اس صدی اور تجارتی دنیا میں سی پیک منصوبہ سرامایہ داری نظام کے اس غلبہ کی خواہشوں اور کوششوں سے کسی بھی انتہاپسندی کی طرف دکھیل سکتا ہے۔ امریکا جس گلوبلائزیشن کا سربراہ بن کر اس نظام کا نمایندہ بنا ہے وہ کسی بھی جارحیت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ براہِ راست جنگ کا زمانہ نہیں مگر بالواسطہ جنگ کے کئی انداز سامنے آ چکے ہیں ان میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے… افغانستان علاقائی، سیاسی اور اقتصادی جنگ کا بنیادی مرکز اور نکتہ ہے جس میں بے شمار عوامل موجود ہیں۔ افغانستان میں اگرچہ ایک حکومت موجود ہے لیکن اس کی حیثیت محض کٹھ پتلی ہے تمام تر کنٹرول امریکا کے پاس ہے بھارت اس میں معاون کا کردار ادا کر رہا ہے بھارتی فوج اور اس کے ادارے، قونصل خانے معاون مراکز بنے ہوئے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے فروغ میں سرپرستی کا کردار بھی نبھا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارتی حکومت بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی اور اس میں شدت کو جواز بنا کر سیاسی دباو بڑھا کر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے ہر حربہ بھی استعمال کر رہا ہے یہ دوطرفہ محاذ آرائی پاکستان کے ارد گرد حصار بنانے کی واضح نشاندہی ہے اور اس کا بنیادی ہدف پاک چین سیاسی دفاعی اور اقتصادی اتحاد ہے جس میں اب وقت اور حالات کے جبر میں سابق سوویت یونیئن اور حالیہ روس بھی شامل ہو چکا ہے۔جو مستقبل میں ایشیا خصوصاً جنوبی ایشیا میں نئے خطوط پر ترتیب پانے والا سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ ہے۔ جس میں سی پیک اور گوادر پورٹ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جس کو پوری دنیا کے ماہرین اقتصادیات سیاسی اور دفاعی ماہرین گیم چینجر تسلیم کر رہے نیں۔
بد قسمتی تو یہ ہے کہ… اس منصوبہ کے آغاز سے ہی امریکا اور بھارت کی علاقائی اقتصادی اور سیاسی بالادستی کے منصوبے کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے گذشتہ چالیس سال سے ہونے والی ’انویسٹمینٹ‘ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے جس کے باعث دونوں ملک واضح جھنجلاہٹ کا شکار ہیں۔ اس کا ادراک ہمارے پالیسی سازوں کو بھی ہے… چناں چہ پانچ دنوں میں پے در پے آٹھ دھماکے ہوئے اور ان میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بھی بنے اور زخمی بھی ہوئے تو جنگ کی نئی حکمت عملی کا اظہار ہو گیا جس کے جواب میں حفاظتی اقدام کے طورپر پاکستان نے افغانستان کی سرحد کی نگرانی بھی سخت کر دی۔ بابِ دوستی بھی بند کر دیا اور سرحدوں پر پہلی دفعہ اسلحہ بردار فوجیں اور توپیں بھی نصب کر دیں۔ افغانستان سے 76 دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے یا پھر پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا آرمی چیف نے امریکی جرنیل کے ساتھ براہ راست ٹیلیفونک رابطہ بھی کیا اور پاکستان میں ہونے والے خود کش حملہ آوروں کی افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی سے بھی آگاہ کیا… لیکن اس کا مثبت جواب کوئی سامنے نہیں آیا بل کہ پاکستان کو 46 دہشت گردوں کی فہرست دے کر ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ تاہم اس دوران میں یہ خبریں بھی آئیں کہ پاکستان کی افواج نے افغانستان کی حدود میں داخل ہو کر دہشت گردوں کو نشانہ بھی بنایا ہے۔ الاحرار کے چار کیمپ اور تربیتی کمپاؤنڈ تباہ کر دیے گئے ہیں۔
سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے اس اقدام کو مستقبل کے لیے غلط قرار دیا کیوں کہ اس اقدام کو بعض عالمی ذرائع ابلاغ نے ’سرجیکل سٹرائیک‘ کا نام بھی دیا تھا۔ اگر یہ ایسا ہی ہے تو پھر واقعتا اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں امریکا جو حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے وہ بھی اس کو جواز بنا کر پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ چوں کہ پاکستان نے اپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے اور مراکز تباہ کر دیے ہیں اب کوئی ڈرون حملہ بھی نہیں ہوا۔ تمام دہشت گرد اور ان کے بڑے جنگجو لیڈر افغانستان میں جا کر پناہ گزین ہو گئے ہیں اور وہی پاکستان میں شروع ہونے والی ’عالمی جنگ‘ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں انہی کو پاکستان نے ہدف بنایا ہے تو معروضی صورتِ حالات کی سنگینی میں امریکا کی برہمی جارحیت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
مشرق کی صورتِ حالات بھی کچھ ایسی بہتر نہیں۔ وہاں بھی کشیدگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اگرچہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دینے کی بنا پر دیرینہ مطالبہ کے تحت نظربند کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک مولانا مسعود اظہر کا معاملہ باقی ہے بھارت کی کوششوں کو ’چین‘ نے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا لیکن اس معاملہ کو کب تک نظرانداز کیا جائے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیوں کہ بھارت نے اس تناظر میں ہنوز اپنی کوششیں ختم نہیں کیں وہ اس معاملے پر چین پر بھی شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ بھارت نے ایک بار پھر چین کے ساتھ سٹریٹجک مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے جس پر مشترکہ مفادات اور کشیدہ معاملات پر بھی مذاکرات ہوں گے ظاہر ہے جب کشیدگی کا باعث بننے والے امور زیرِ بحث آئیں گے تو اس میں پاکستان اور مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت ہو گی اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کے کردار پر بحث نہ ہو… اور پھر گیم چینجر سی پیک اور گوادر پورٹ جیسی دفاعی اور اقتصادی نئی سمت کا تذکرہ نہ ہو۔ قومی سلامتی کے نام پر تحفظ اور نگرانی کے ساتھ تجارت اور مارکیٹوں کے حصول اور ان کی تقسیم پر تبادلہ خیال نہ ہو… کیوں کہ اس وقت تلخ ترین حقیق تو یہی ہے کہ ’سی پیک‘ نے امریکا کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ تجارت کی اس دنیا میں بھارت ہے۔ چناں چہ ہمیں یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ انتہاپسند اور شدت پسند ماضی کے ساتھ ایسی ہی مخصوص اور محدود سوچ رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں نہ تو پاکستان کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی سرحدی صورتِ حالات خوشگوار ہو سکتی ہے۔ دفاعی طاقت، وسیع ترین مارکیٹ اور اقتصادی ترقی کا زعم اسے بیک فٹ پر کھیلنے کی اجازت نہیں دے گا بل کہ وہ فرنٹ فٹ پر آ کر چوکے چھکے ہی لگانے کی خواہشوں اور کوششوں کا اسیر ہو گا۔ تاوقتے کہ ان سوئنگ بال اسے بولڈ کر دے لیکن یہ خوش قسمتی ہے کہ بھارت میں لیگ کھیلنے والی ٹیموں میں فی الوقت کوئی ان سوئنگ کا ماہر باؤلر نہیں اور پھر یہ بھی کہ ’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن‘ بھی اس کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ وہ ابھی تک وسیع مارکیٹ گراؤنڈ میں کھیلنے کے خواب دیکھ رہی ہے جس کا فائدہ مودی سرکار کو ہو رہا ہے۔
بہرحال دوستو… سرد جنگ کا زمانہ کچھ اور تھا اور آج کی جنگ کا منظرنامہ بھی کچھ ویسا ہی ہے مگر مفادات کی بدلتی ہوئی شکل و صورت نے ترجیحات تبدیل کر دی ہیں اور ان پر عمل درآمد کے انداز بھی تبدیل ہو گئے ہیں نئی اقتصادی قوتیں میدان میں آ گئی ہیں تو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا کردار بھی اس طریقے سے متاثر کن نہیں رہا نئی اقتصادی قوتوں نے انویسٹمینٹ کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری بھی کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریسی سے چھین کر خود اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اکانومی کی یہ دنیا کرپشن اور بدعنوان مافیا سے نجات کا بندوبست کر کے براہِ راست عوام کو فائدہ پہنچا کر اپنے لیے ہمدردیاں بھی حاصل کر رہی ہے جس کے باعث پسند اورناپسند کے معیار بھی تبدیل ہو رہے ہیں… ترجیحات کے اس وسیع تناظر کو پاکستان کے عوام کے اجتماعی رویوں اور سوچ میں بھی دیکھا اور سناجا سکتا ہے ۔ پاکستان کے عوام اور حکمران بھی اب امریکا کی بات نہیں سنتے چین کو ہی اولین ترجیح دیتے ہیں۔
حرفِ آخر کی صداقت یہی ہے کہ پاکستان نے سابق ادوار میں امریکی خواہشوں کے احترام میں افغانستان کے اندر سوویت یونیئن کے خلاف جو کچھ بویا تھا اس کے نتیجہ میں زمین سے اوپر جو فصل نکلی تھی اس کو اپریشن ضربِ عضب کے ذریعے بہت حد تک کاٹ دیا ہے لیکن اس کی زمین کے اندر جڑیں ہنوز ختم نہیں ہوئیں ان جڑوں کو زمین کے اندر سے نکالنے کے لیے تدبر اور تحمل کے ساتھ وقت اور حالات کے مطابق حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ نہ تو کل آسان تھی اور نہ ہی آج سہل ہے۔ مزید بدقسمتی کہیے کہ ایک طرف نظریات ذہنوں میں سرایت کر دیے گئے ہیں تو دوسری طرف انھیں دولت اور وسائل کی فراہمی بھی ہو رہی ہے۔ چناں چہ نئی سوچ اور نئی حکمت عملی نہیں بل کہ اس کے لیے اعتدال، رواداری اور برداشت کی فکری ثقافت کو فروغ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے جہاں تک سیاسی اور دفاعی طرزِ فکر کی بات ہیتو… اولاً اس بات کو حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے دنیا میں قوموں اور ملکوں کے درمیان دوستی اور برادرانہ تعلقات کو نہیں مفادات کو ہی اولیت حاصل ہوتی ہے وہی اول اور آخر ہوتے ہیں۔ ہمیں افغان باقی کہسار باقی کے تصور سے مکمل آزادی حاصل کرنی چاہیے… اور وہ جو گیٹ وے اور جغرافیائی اہمیت پر ناز تھا اس کے زیر سایہ کسی زعم کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ صرف اور صرف اپنے ملک، اپنی دھرتی، قومی سلامت اوراس کے دفاع کو ہی پہلا اور آخری مقصد بنانا چاہیے۔ دنیا خود آپ کے ساتھ چلے گی، اپنے مفاد کے لیے۔ آج اگر چین آپ کا ہم رکاب ہے، روس بھی اس قافلے میں شامل ہے تو کل… امریکا اور بھارت کو بھی مفادات آپ کے ساتھ چلنے پر مجبور کر سکتے ہیں… لہٰذا آپ کو لبرل معاشرے کی ترویج پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے یہ جو نظریات کے نام پر بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں وہ خود بخود نیست ہوتے جائیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn