لاہور مغل بادشاہوں کا پسندیدہ ترین شہر رہا ہے۔ ’اکبر اعظم‘ نے تو لاہور کو پندرہ سال تک اپنا عارضی دارالحکومت بھی بنائے رکھا تھا۔ بل کہ 1615، 1616 میں آنے والے کچھ سیاح تو ’جہانگیر‘ کے بھی کئی سال تک لاہور میں قیام کی نشاندہی کرتے ہیں یاد رہے مذکورہ زمانہ شہنشاہ جہانگیر کا ہی ہے اور پھر تاریخ کے طلباے علم کو یاد ہو گا کہ جہانگیر کی موت کشمیر کی سیاحت کے دوران میں ہوئی تھی اور اسے اس کی خواہش کے مطابق ہی ملکہ نور جہاں کے راوی کنارے پسندیدہ باغ دلکشا میں دفن کیا گیا تھا جس پر مقبرے کی تعمیر اس کے بیٹے شاہجہاں نے کروائی تھی۔ پھر اسی کے ساتھ ملکہ نورجہاں کا مقبرہ تعمیر کروایا گیا تھا۔ جس پر ایک زمانہ نورجہاں سے ہی منسوب یہ شعر بھی درج ہوا کرتا تھا:
بر مزارِ ما غریباں نے چراغے نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
ظاہر ہے جب شمع ہی نہیں جلے گی تو پروانہ کہاں سے آئے گا اور اگر کوئی پھول نہیں کھلے گا تو بلبل صدائیں کیسے بلند کرے گی… یہ مزار کہاں ہے شاید محکمہ آثارِ قدیمہ اور تاریخ، تہذیب اور ورثہ کے دشمن حکمرانوں کو بھی معلوم نہ ہو۔ کیوں کہ ان مزاروں کی کوئی کمرشل حیثیت نہیں اور کاروباری لوگ ماضی پر نہیں مستقبل کے ’کیش ایوارڈ‘ پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
بہ ہر حال اکبر اعظم 1584 میں لاہور آیا تھا تو اس کی تین بنیادی وجوہ تھیں:
1۔ دلا بھٹی کی قیادت میں اٹھنے والی کسان تحریک تھی جس نے سرکار کو ’زرعی ٹیکس‘ دینا بند کر دیا تھا۔
2۔ دریائے چناب کے اس طرف گجرات میں اٹھنے والی بغاوت تھی جس کی قیادت اس کا بھائی مرزا عبدالحکیم کر رہا تھا۔
3۔ فتح پور سیکری کا وہ پانی تھا جسے استعمال کر کے اس کے حرم کی اٹھارہ رانیاں پیٹ کی مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئی تھیں۔ اور سرکاری طبیبوں نے انھیں اچھی، مناسب اور صحتمند جگہ پر منتقلی کا مشورہ دیا تھا… جس کے لیے راوی کنارے کا یہ شہر موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔ حال آں کہ ’اکبر اعظم‘ جسے مغل اعظم بھی کہا جاتا ہے اس نے آگرہ اور فتح پور سیکری کے شہر بڑی خوشی اور ذاتی دلچسپی سے آباد کروائے تھے۔ یہی وہ آگرہ تھا جہاں اس کے پوتے شاہجہاں نے اپنی محبوب ملکہ مختار محل کی یاد میں دنیا کا ساتواں عجوبہ تاج محل تعمیر کروایا تھا۔ وہ مختار محل جو شاہجہان کے چودھویں بچے کو جنم دیتی ہوئی لقمہ اجل بن گئی تھی… یہی وہ شاہجہان تھا جس کو اس کے فرزند ارجمند اورنگ زیب عالمگیر نے اقتدار کی خاطر زندان میں ڈال دیا تھا جہاں وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو کر چل بسا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ’داراشکوہ‘ کو مغل سلطنت اور تخت طاؤس کے لیے اپنا نائب مقرر کیا تھا اس کی یہ حرکت اورنگ زیب کو پسند نہیں آئی۔ لہٰذا اسے باپ کو زندان میں ڈال کر اپنے بھائیوں کو بھی راستے سے ہٹانا پڑا۔ اورنگ زیب اس حوالے سے مختلف مغل بادشاہ تھا کہ اس نے قلعے تعمیر کروائے، تاج محل بنوائے… شہر آباد کیے، بل کہ مساجد تعمیر کروائیں دہلی اور لاہور کی مساجد اُسی کے ذوقِ نظر اور مذہبی رجحان کا شاہکار ہیں۔
یہ تو بادشاہوں کی تاریخ ہے جس میں ایسے واقعات کی بے شمار شہادتیں موجود ہیں مغلوں میں تو اقتدار کے لیے قتل و غارت کی روایات کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بھائیوں کو دشمن سمجھنا انھیں اقتدار کی حرص و ہوس میں قتل کرنا کچھ ایسا معیوب بھی نہیں رہا۔ ہمارا بنیادی مقصد ان روایات کی بازگشت سننا اور اپنے قارئین کے گوش گزار کر کے سیسہ پگھلانا نہیں۔ ہمیں تو اس ’لاہور‘ نے پریشان کیا ہے جو مغلوں کا پسندیدہ شہر تھا۔ اور یہاں کا پانی ’منرل واٹر‘ کا درجہ رکھتا تھا جو مغلوں کو دہلی، فتح پور سیکری اور آگرہ جیسے شہروں سے لاہور کھینچ لاتا تھا… وہ شہر جس کا پانی آج زہر آلود ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ہر دوسرا شخص معدے کی بیماری کا شکار ہے حکمران صرف بیانات جاری کرتے ہیں کہ پینے کا صاف پانی عوام الناس کو فراہم کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ لاہور میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں جو ترقی ہو رہی ہے یا پھر اس مرض میں مبتلا ہو کر جگر کے کینسر کی گرفت میں آنے والے روز بروز کیوں بڑھ رہے ہیں یا پھر ان کے علاج کے لیے جو ہسپتال بنائے گئے ہیں وہاں ملنے والا پانی بھی صاف ہے یا نہیں۔ اگر انھیں چند روز کے لیے یہ پانی استعمال کرنا پڑے تو کیا ان کا نازک مزاج ’منرل واٹر‘ وہ بھی امپورٹڈ پینے والا، معدہ یہ زہریلا پانی بھی برداشت کر سکے گا یا نہیں؟ ویسے یہ پانی انھیں کچھ دن عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر ضرور استعمال کرنا چاہیے… انھیں یہ بھی معلوم ہو کہ انسانی جسم میں موجود 75 فی صد پانی میں اگر زہر کی ملاوٹ ہو جائے تو اس کے صحت اور انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
صاحبو ہمیں یہ دکھ بھری کہانی تازہ ترین اخباری رپورٹ سے یاد آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لاہور شہر کے پانی میں ’سنکھیا‘ کی مقدار جو بہت معمولی 0.01فی صد ہوتی ہے وہ ترقی کر کے 40 فی صد تک پہنچ گئی ہے اور وہ جو پانی کی عوام کو فراہمی کے لیے ’واسا‘ کا محکمہ بنایا گیا ہے وہ جو پانی فراہم کرتا ہے وہ بھی ناقص ہے اور جو دعوؤں اور نعروں کے ساتھ فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے تھے وہ بھی حسن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ تو اس میں بے چارے عوام کا کیا قصور ہے واسا نے تو قانونی گرفت سے بچنے کے لیے پانی کے بلوں پر ہی لکھ دیا ہے کہ… جس گھر میں پانی صاف نہ آتا ہو وہ اپنے پائپ خود درست کروائیں… یعنی عوام جائیں بھاڑ میں۔ اب کوئی اپنے حق کے لیے عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا۔
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn