Qalamkar Website Header Image

سیاسی اسموگ | اکرم شیخ – قلم کار

ہمارا دوست کالو مکرانی سٹھیا گیا ہے لیکن اُس کے اندر کا جیالا اُسی رٹ پر لگا ہوا ہے اگرچہ دنیا بدل گئی ہے سیاست کا انداز اور طرز فکر تبدیل ہوگیاہے نہ وہ کردار رہے ہیں نہ اُن کے تقاضے ،نہ ہی اُن کی ترجیحات ، مفاد پرستی اور موقع پرستی نے خیالات و رجحانات کو تبدیل کر دیا ہے . اس کے باوجود ہمارا دوست ذوالفقار علی بھٹو کو آئیڈیل سمجھتا اور بلاول بھٹوزرداری میں ذوالفقار علی بھٹو کو تلاش کرتا ہے .حالانکہ کچھ اور لوگوں کی طرح کبھی کبھی یہ تسلیم کرنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان میں بھٹو صرف ایک سیاسی ضرورت ہے اگر یوں نہ ہو تو پھر کاروبار سیاست کیوں چلے یہ تو جملہ ہائے معترضہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن سچائی تویہ بھی ہے کہ گذشتہ دنو ں بلاؤل نے ایک سنجیدہ اور کہنہ مشق صحافی کو جس اعتماد اور حوصلے سے انٹرویو دیا ہے وہ یقیننا ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے برابر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جس تیزی سے سیاسی بلوغت کا سفر کررہا ہے بہت جلد وہ سیاست کے میدان میں بچھی ہوئی آسٹروٹرف پر بطور فارورڈ کھیلتا دکھائی دے گا. ویسے بھی اب یہ نئی دنیا ہے اور اس میں نئی سیاست نئے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہوگی. یعنی کنٹرولڈ جمہوریت اور کنٹرولڈ سیاست ہمارے ذاتی خیال میں اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہی ہے اس کے باوجود تمام طاقت تمام ہتھیار اور تمام وسائل اُس کے پاس ہیں پھر بھی وہ خوف وخطر کی زد میں ہے بلکہ ہمارے ایک دانشور علامہ فکر گنگولوی کے بقول جب کبھی ایسی طبع آزمائی ہوتی ہے یا تمام وسائل میدان جنگ میں جھونک دیئے جاتے ہیں تو پھر بہت کچھ "خفیہ ہتھیار” کے طور پر باقی نہیں رہتا وسائل اور طاقت کے بے دریغ استعمال چومکھی لڑائی تو بنا دیتا ہے مگر کوئی محفوظ راستہ بھی لازم ہوتا ہے . ظاہر ہے کبھی کبھی طاقت اور اختیارات کا زعم حوش گمانی خوش فہمی کا اسیر بھی بنا دیتا ہے اور جلدی میں کچھ ایسے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں ، مشکلات کا باعث ہوتے ہیں اور وہ مزید غلطیوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں پھر انہیں چھپانا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ آج کل ٹیکنالوجی کی دنیا آزاد میڈیا کی غلام پالیسیوں اوربے چارے تنخواہ دار دانشوروں کے گمراہ کن خیالات کے باوجود عوام کا فیصلہ، فیصلہ کن ہوتا ہے ایسے میں ریموٹ کنٹرولڈ سیاستدان اور ادارے جو کچھ بھی کریں کہیں وہ قابل قبول نہیں ہوتا اُس کا نتیجہ تمام تر پابندیوں اور حصاروں کے باوجود حلقہ این اے 120 لاہور کے انتخابی نتائج کی صورت برآمد ہوتا ہے جو طاقت اور شعور کے درمیان جنگ میں فتح اور شکست کا عکاس بھی ہوتا ہے او رنئی ترجیحات مرتب کرنے پر مجبور بھی کرتا ہے . مزید بدقسمتی سے حلقہ این اے چار میں چھپا راز پشاور کے اخبارات سے تلاش کیا جاسکتا ہے . بہرحال جو کچھ بھی ہے ریمورٹ کنٹرولڈ سیاستدان اور چابی کے کھلونے جو مرضی کہیں دانش کے نام پر جو بھی حقائق چھپانے کی کوشش کریں یا پھر گوگل کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اتنا جھوٹ بولو کہ اُس پر بھی سچ کا گمان ہو. لیکن صاحبو یہ جو حالات و واقعات میں تیزی سے ہر کام اتنی جلدی میں ہوئے کہ اُس میں غلطیوں اور کوتاہیوں کی واضح نشاندہی بھی ہوتی ہے پھر بھی سچائی کا دعوی ہے ہم ایسے لوگ بیٹھے میدان جنگ کا نظارہ کررہے ہیں وہ مسکراہٹوں کے باوجود خوفزدہ ہیں کہ کہیں کوئی بیرونی حملہ آور نہ آجائے ، یا پھر کوئی شکست خوردہ پلٹ کر جنگ احد کا منظر نامہ بنادے اور پھر سب کچھ نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے آج پتہ نہیں یہ کس نے کہا ہے لیکن حافظے میں کہیں موجود ہے کہ حالات 70ء کی دہائی والے ہیں خدا نہ کرے ایسا ہو . خوش قسمتی اگر اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں کوئی شیخ مجیب الرحمن نہیں جو تنگ آور بجنگ آمد کا نمائندہ ہو لیکن ہمارے نزدیک بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس خطرناک صورتحال میں کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں جو بکھری ہوئی منتشر اور شکست خورہ قوم کی نئے عزم اور حوصلے سے راہنمائی کر سکتا ہو . پھر بھی علامہ فکر گنگولوی کے بقول بس ایک تعلی تو ہے کہ عسکری قیادت یحیی خان کے پاس نہیں ، مزید یہ کہ کہیں کوئی نیازی بھی نہیں. عسکریت ہو یا سیاست ہر کوئی حب الوطنی سے سرشار ہے کسی کی ذات پر اسے حوالے الزام تراشی کی بارشوں کے اس دور میں کسی پر کوئی ایسا الزام نہیں پھر بھی اس عہد میں کچھ عبث نہیں جانے کس کی زبان پر کیا آجائے ہمارے سیاستدان اتنے بھی باشعور اور فہم و ادراک کے مالک نہیں. ویسے بھی جب ریموٹ کنٹرولڈ سیاست اور سیاستدانوں کا غلبہ ہو جب اُن کا کردار محض کٹھ پتلیوں کا ہو تو پھر انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ پڑھیں بھی اور علم بھی حاصل کریں . وہ علاقائی صورتحال پر بھی مغزماری کریں اور بین الاقوامی سیاست اور معیشت پر سرکھپائی کر کے اپنا وقت ضائع کریں. انہیں اپنے کام پر اپنی ذمہ داری پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے بلکہ اپنے اعمال و کردار سے حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، باقی جو کچھ بھی ہے وہ جس کا کام اُسی کو ساجھے.
تو صاحبو! بات کہاں سے کہاں چلی گئی . سچی بات تو یہ ہے کہ جب کچھ کہنے کو نہ ہو تو اس طرح ہی ہوتا ہے دوسرا یا پھر بہت کچھ ہو تو خیالات اوراُس کے اظہار میں مرکزیت نہیں رہتی قابل بیان واقعات و حالات کی یلغار کسی ایک کا انتخاب بھی ممکن نہیں رہتا انتشار و انفراق اجماع کے راستے ہموار نہیں ہونے دیتا تو یونہی ہوتا ہے . ویسے آپس کی بات ہے ہماری آج کی سیاست بھی چوں چوں کا مربہ بنی ہوئی ہے ہرطرف سے الجھنوں کی یلغار ہے اور بے چارے عوام کی حالت اُس مردار کی ہے جس پر گدھ ،چیلیں اور کوے حملہ آور ہیں تو زمینی جانوروں میں کتے اُسے نوچ رہے ہیں . ہر طرف شور برپا ہے کچھ بھی تو صاف سنائی نہیں دیتا.جب کچھ سنائی نہیں دے گا تو اس کا رد عمل یا جواب کیسے آئے گا ، اسی طرح کا شور شرابہ ہوگا تو تحریریں بھی ویسی ہی سامنے آئیں گی۔ لیکن شاید کہیں نہ کہیں ایسی ہی پراگندہ فضا کی ضرورت ہے ایسے آلودہ ماحول کی اہمیت لازم ہے جس میں کسی کو کوئی بھی منظر واضح نظر نہ آئے ، ایسے میں اگر فوگ سیاسی اسموگ بن گئی ہے اُس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، دیکھنے والوں یا پھر منظر کو صاف دیکھنے والوں کی آنکھیں جلن کا شکار ہیں یا پھر اگر لوگوں کے لئے سانس لینا بھی مشکل اور تکلیف دہ ہو تو پھر ڈاکٹروں کا یہ مشورہ بھی قابل توجہ ہوجاتا ہے کہ اسموگ میں باہر نکلتے وقت آنکھوں کی حفاظت کے لئے عینک استعمال کریں اور سانس کی دشواری اور بیماری سے بچنے کیلئے ماسک استعمال کریں اب اگر بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو پھر ہمارا کیا قصور ہے . ہم کوئی خدائی خدمت گار ہیں اور نہ ہی واعظ….

حالیہ بلاگ پوسٹس