Qalamkar Website Header Image

ماضی کے گٹر سے اُبلتا ہوا تعفن | اکرم شیخ

پانامہ ، اقامہ ، نا اہلی فوج اور عدلیہ کی حفاظت کے جوش خطابت کے مادر پدر آزاد مظاہروں میں اُلجھے ہوئے ہمارے عظیم سیاسی راہنما اور دنشور اگر قومی سلامتی کے گریبان میں ایک لمحہ کے لئے بھی جھانکیں تو انہیں ماضی کے اوراق پر بہت کچھ سیاہ حروف میں لکھا سامنے آسکتا ہے لیکن افسوس اول تو اُن کے پاس اقتداری سیاست کی بیان بازی نے اتنا وقت ہی نہیں چھوڑا ،دوسرا ماضی کی طرف جھانکنے کیلئے بصیرت اور بصارت کے ساتھ زندہ خمیری کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن کیا کیجئے کہ ریاستی آلودگی نے دلوں کے ’’والو‘‘ ہی بند کر دیئے ہیں کانوں میں تو پہلے ہی سیسہ پڑا ہوا تھا آنکھوں کو ٹی وی کیمروں کی روشنی نے چندھیا دیا ہے رات کے اندھیروں میں بھی گلاسز استعمال کرنا پڑتے ہیں اس صورتحال میں ہمارے ایک دوست کا کہنا بجا ہے کہ …. اگرآزاد ذرائع ابلاغ میں ٹی وی کی سکرینیں بند کردی جائیں تو سیاستدانوں ہی نہیں دیگر کے ساتھ یاران نکتہ داں کو بھی صادق اور امین بننے میں کوئی امر مانع نہیں ہوگا. وہ با ادب بھی ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کیلئے محترم بھی۔ یہ سب خرابی مادر پدر آزاد ٹیلی ویژن سکرینوں کے باعث ہے ۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے جہاں فکر ی ابکائیوں نے غلاظت کے ڈھیر لگا رکھے ہیں وہ تعفن ہے کہ گزرنا مشکل ہے .. کسی سویپر کا کہیں دور دور تک کوئی سایہ بھی حرکت میں نہیں… تو پھر دوستو.
اس شہر نا پرساں میں ہم ایسے لوگوں کے پاس نوحہ خوانی کے سوا کوئی چارہ نہیں یہ الگ بات کہ ہماری نوحہ خوانی میں جو کچھ حقائق ہوتے ہیں اُن پر بھی تیروں کی بارش لازم سمجھی جاتی ہے . ماضی میں جھانکنا اور اس میں سے حقائق کا آئینہ بدکا راور مکروہ حقائق کے روبرو کرنا کسی جرم سے کم نہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ حال ماضی کا گھاس ہوتا ہے بس ذرا اُسے کشید کرنا پڑتا ہے اسے عرف عام میں جو بویا ہے کاٹا جاتا ہے بھی کہتے ہیں.
گذشتہ ہفتے کراچی میں رینجرز کے ترجمان مقابلے میں لقمہ اجل بننے والے آٹھ دہشتگردوں کی داستان سُنا رہے تھے جن کا تعلق انصاف الشریعہ سے تھا ان دہشتگردوں میں سے چار مبینہ دہشت گرد کوئٹہ کی طرف فرار ہو گئے تھے . اس گروہ میں کل پندرہ بیس افراد ہیں انہوں نے افغانستان سے تربیت حاصل کی ہے ان کا رابطہ القاعدہ سے بھی ہے .. مزید یہ تمام افراد اعلی تعلیم یافتہ ہیں..
قارئین کو یاد ہوگا کہ … ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار پر حملہ ہوا تھا تو اس گروپ کی نشاندہی ہوئی تھی اس کے بعد جامعہ کراچی میں طلباء کی سکروٹنی بھی ہوئی تھی اور ہوسٹلز میں قیام پذیر طلباء کے بارے تمام معلومات بھی مختلف اداروں نے جمع کی تھیں. گویا دہشت گردوں یا پھر ان گروہوں نے تعلیمی اداروں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز اور پناہ گاہ بنایا ہوا تھا .لیکن اس کا ایک اور پہلو تو یہ بھی ہے کہ … دہشتگردوں کی مبینہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں یا نوجوان طالب علموں کو اپنے نظریاتی حصار میں جکڑا ہوا ہے یا پھر انہوں نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی ہوئی ہے بلکہ وہ اس کو اپنے مقاصد کے لئے بھی اتنی ہی مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ مذکورہ گروہ اوراس سے وابستہ افراد بھی اس ٹیکنالوجی کے ماہر بھی ہیں… اس لئے صاحبو جنگی تاریخی کا مطالعہ کریں تو بہت سارے حقائق مختلف پہلوؤں سے سامنے آتے ہیں.
آرینز ہندوستان آئے تھے تو ہڑپہ تہذیب میں دراوڑوں کی بالادستی تھی . آرینز جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے اور قابض ہو گئے درادڑوں نے جنگلوں میں پناہ حاصل کی اور پھر مختلف گروہوں کی شکل میں مزاحمتی کاروائیاں شروع کیں جسے آج کی اصطلاح میں کمانڈو وار بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ اس انفرادی اور گروہی جنگ میں طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکے بالآخر انہیں شکست ہوئی….دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں بھی یہ جنگ 70فیصد سے زائد کامیابی حاصل کر چکی ہے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اور مراکز ختم کر دیئے گئے ہیں لیکن رد عمل میں مزاحمتی یاد مدافعتی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے دہشت گردوں کی منظم اور مربوط تنظیمیں تو بر سر پیکار ہیں مگر اب یہ سلسلہ چھوٹے چھوٹے گروہوں ، مقامی تنظیموں اور انفرادی کوششوں تک آگیا ہے تو یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ تعلیم و تربیت ہے، برین واشنگ ہے یا پھر نظریاتی تخلیق ہے؟ نظریہ سازی ہے تو اس کے عوامل و محرکات کیا ہیں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ہے جو قوت متحرکہ تھی اور اُس نے یہ ذاری نبھائی ہے . او رہم ایسے نوحہ خواں جب اصل حقائق کی تلاش کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘
تو پھر ….بہت کچھ سامنے ہونے کے باوجود راز میں رکھنا مجبوری بن جاتا ہے .ہو جہاد جو کمیونزم کے خاتمہ یا پھر سوویت یونین کے انتشار کے لئے امریکی دولت اور ہتھیاروں سے شروع ہوا تھا ہمارے حکمرانوں نے عوام کو متاثر کرنے اور انہیں اس پرائی جنگ میں شامل کرنے کو تعلیم اور تربیت میں جو نظریاتی ہتھیار فراہم کئے تھے نوجوان نسل کو جو نصاب دیا تھا اُس کے نتیجہ میں اگر چند طلباء مل کر انفرادی جدوجہد کے لئے انصار الشریعہ بناتے اور جہاد شروع کرتے ہیں …. جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے روابط بڑھاتے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے ، اپنا ہم خیال بناتے ہیں. تو یہ کچھ آج کی دنیا میں زیادہ حیران کن نہیں. پھر اگر بڑی تنظیمیں اور اُن کی مانیٹرنگ ٹیمیں ایسے مقامی گروہوں سے رابطہ کر کے ان کی جدوجہد کو تحسین پیش کرتی بلکہ اُن کے عزائم کی حوصلہ افزائی اور معاونت کی یقین دہانی بھی کراتی ہیں تو کچھ عبث نہیں اس طرح تو یہ گروہ منظم اور مربوط ہوتے اور پھر اُن کے تعلقات بھی وسیع ہوتے ہیں.
یہ خوش کن لمحہ ہے کہ ہمارے اداروں نے اپنے فعال ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے اور اس گروہ کو ابتدائی مرحلے میں ہی گرفت میں لے لیا ہے. لیکن یہ یقین دہانی کہاں سے حاصل کی جائے گی کوئی اور گروہ سامنے نہیں آئے گا ؟؟اور انفرادی طور پر تبدیلی کی کوشش نہیں کرے گا؟؟ المیہ تو یہ ہے کہ جس نصاب کو ضرورت سمجھ کر ترویج دی گئی تھی وہ تو جوں کا توں موجود ہے کیونکہ سزاؤں کے تعین اور عملدرآمد سے جرم ختم نہیں ہوتا بلکہ جرم کے محرکات کا خاتمہ لازم ہوتا ہے ….

حالیہ بلاگ پوسٹس