ملکی معیشت ایک بار پھر تلخ صورتحال میں نازک موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے ہمارے اور امدادی اور زکواۃ ادارے تشویش میں مبتلا ہیں اور انہوں نے حکم حاکم کے تحت فی الوقت مزید امداد دینے سے انکار بھی کیا ہے ، اور ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمیں کاروبار حکومت چلانے فوری طور پر ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے . ایسے میں اگرہم کو کہیں سے کچھ امداد نہ ملی تو ہمالیہ سے بلند دوستی کا دستِ تعاون نہ ملا یا پھر کسی دوست عرب نے دوستی سے بھی آگے برادرانہ جذبات کا اظہار نہ کیا تو ہم مجبوروں اور بے بسوں کے پاس ’’ڈومور‘‘ یس سر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا… وہ تو پہلے ہی بار بار پیسوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بنیوں کی طرح حساب کتاب کی باتیں کرتے ہوئے احسان بھی جتاتے ہیں اورمطالبے میں شدت بھی پیدا کررہے ہیں . .. اسی لئے تو ہمارے سفیر نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ … آپ نے بھی تو ہماری بندرگاہ میں سڑکیں اور انفراسٹرکچر استعمال کیا تھا.. گویا اگر ہم آپ کے سہولت کار نہ بنے تو افغانستان اور وسطی ایشیاء کے سینکڑوں ٹریلین ڈالرز کے تیل اور گیس کے ساتھ معدنی ذخائر پر قبضہ ہوتا… اور نہ ہی روس ، چین اور ایران پر خصوصی نظرکرم رکھنے کو فوجی اڈے کے لئے جگہ میسر ہوتی اور نہ ہی بھارت کے ساتھ سنٹرل ایشیاء ،جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطی میں سٹریٹجک پارنٹر شپ ہوتی، بحر ہند میں سنٹرل کمانڈ پر دسترس قائم ہوتی…
لیکن …ہم اپنے قارئین کو شروع سے ہی یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اول تو امریکی کوئی قوم نہیں کیونکہ قومیں اپنی تہذیب اور تاریخ سے بنتی ہیں جو اصل امریکی ہیں وہ مغلوب ہیں اور اُن پر یورپ کے ڈاکوؤں ، چوروں ، مجرموں اور مفروروں کی نسلوں کا قبضہ ہے ، وہی سفید فام ہیں جواب مختلف تقریبات میں ’’یو ایس اے‘‘ کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں جو احساس محرومی بھی ہے اور ردعمل بھی… … بہرحال دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی قوم ہوگی جو امریکیوں سے بڑھ کر موقع پرست اور مفاد پرست ہوتی طوطا چشمی میں کوئی اس کا ثانی ہوگا. یہ عجیب وقت ہے کہ اُسے ٹرمپ جیسا طوطاچشم حکمران بھی مل گیا ہے جس کے پاس ری پبلکن پارٹی کی جارحیت پسندی کا ورثہ بھی ہے . یاد رہے کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد بھی 21جنوری 81ء کو امریکی صدر ریگن اور مجاہد اسلام جنرل محمد ضیاء الحق کی ملاقات کے بعد شروع ہوا تھا او رپھر جب افغانستان پر براہ راست قبضہ ہوا تھا تو ا مریکہ پر بش جونیئر کی حکومت تھی اور پاکستان پر جنرل مشرف حکمران تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے امریکہ کے دوسرے جہاد میں ’’فرنٹ مین‘‘ کا کردار ادا کیا تھا .. جنرل مشرف بیماری کا علاج کروانے بیرون ملک گئے تھے اور اب وہیں کے ہوکر رہ گئے ہیں.
اس موقع پر ہم کو تاریخ کی ایک اور سچائی یاد آتی ہے …. 99ء میں جب فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں تھے تضادات کے انتہاؤں کو چھونے کی خبریں زینگ قرطاس بن رہی تھیں تو خادم اعلیٰ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ نجی دورے پر واشنگٹن گئے تھے امریکہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ہم جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں لیکن کچھ دنو ں بعد طیارہ اغوا ہو گیا تھا اور نواز شریف جال میں پھنس گئے تھے. اس تناظر میں چودھری نثار اور خادم اعلیٰ کی دیرینہ دوستی اور تعلقات کی گہرائی ہی نہیں بلکہ ہم خیالی کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے . ہم ایسے بے خبر لوگوں کو اندر کی خبر کا تو پتہ نہیں ہوتا… محض کچھ اندازے اور قیاس ہوتے ہیں جن کو وقت اور حالات میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے پاکستان کے وزیر خارجہ ’’گھر کی صفائی‘‘ کی ضرورت کا احساس دلانے کے بعد امریکہ کے دورے پر گئے تھے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کو کم کیا جائے امریکی وزیرخارجہ سے اُن کی ملاقات ہوئی اور پھر امریکی وزیر خارجہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیئے کہ . ہم پاکستان میں ایک مستحکم حکومت چاہتے ہیں. . حکومت مستحکم کیسے ہوگی اور وہ کس کے ساتھ مذاکرات کریں گے ؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات انتہائی بد ترین صورت حال کا شکار ہیں . امریکی حکام کے مونہ سے شعلے نکل رہے ہیں اور اس کی بنیادی اور اہم ترین وجہ سی پیک ہے …. ہم نے تو اس تناؤ اور کشمکش کی نشاندہی اپنے قارئین کے لئے بہت پہلے کردی تھی اب دیکھئے امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں پالیسی ساز اسی روش پر چلتے ہیں یا پھر کہیں کسی سمت میں نرمی کا اظہارکرتے ہیں… ویسے اگر کچھ لوگ یہ سمجھنا اور جاننا چاہیں کہ ان بدترین حالات اور وقت کی سنگینی میں نواز شریف کی نا اہلی کیوں ضروری ہوگئی تھی تو وہ اس کا ایک پہلو یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اب کوئی درمیان ہوگا نہ واسطہ….سب کچھ براہ راست ہی ہوگا..یوں تو پہلے بھی سب کچھ براہ راست ہی تو تھا .. پھر بھی دوستو وقت اور حالات کی سنگینی بتاتی ہے کہ اکتوبر کا یہ مہینہ ہر اکتوبر کی طرح بہت سارے نئے امکانات کا باعث ہوگا. . افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی آرمی چیف کی دعوت پر پاکستان آنے کا وعدہ کیاہے امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی پاکستان آنے والے ہیں….
اور ادھر ہمارے ہاں ..’’فرزند راولپنڈی‘‘ کہتے تو یہی ہیں کہ وہ قطری خط لے کر آئے ہیں لیکن وہ نجی دورے پر تین دن کے لئے ہانگ کانگ میں مقیم تھے البتہ آتے ہی انہوں نے وزیراعظم خاقان عباسی پر ایل این جی معاہدے میں 200ارب روپے کی کرپشن کے الزام کے ساتھ عدالت میں جانے کا عندیہ دیا ہے.
نیب کے چیئرمین اپنے عہدے پر فائز ہوگئے ہیں انہوں نے تبدیلی کے نظر آنے ، سیاستدانوں کے خلاف کیسز میرٹ پر تیزی سے ٓاگے بڑھانے اور اُن کی خود نگرانی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ، گویا غیر جانبدار احتساب کا عمل شروع ہوگا…
آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اور رینجرز کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل رضوان اختر قبل از وقت ریٹائرڈ ہو گئے ہیں اُن کے جانے پر سوشل میڈیاپر الزامات کا طوفان برپا ہے..
تو ایسے میں دوستو ہم ….سیاستدانوں کی توتکار اور دشنام طرازی پر توجہ دیں عمران خان کے صادق اور امین ہونے پر یقین کریں یا باقی سب کو کرپٹ اور بد عنوان تسلیم کریں . یا پھر بین الاقوامی حالات کے دباؤ میں پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کیلئے ہاتھ اُٹھائیں … اور کس کے ہاتھ پر اپنا لہور تلاش کریں، اور پھر کاش ہم اس کا برملا اظہار بھی کرسکتے…
’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn