Qalamkar Website Header Image

پیٹ کا سمندر – اکرم شیخ

ایک زبان لفظوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور اُسے انسان ایک دوسرے سے رابطے اور اپنے مافی الضمیر کے لیے استعمال کرتے ہیں اس کی تشکیل تہذیب اور ثقافت کے پس منظر سے ہوتی ہے اسی لیے وہ ہر علاقے کی انسانی آبادیوں میں مختلف ہوتی ہے۔ خطہء ارض پر اس وقت بھی ہزاروں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ایک اور تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ سرمایہ داری نظام اور اس کی ضرورت کے تحت ایجاد ہونے والی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انگریزی زبان کو عالمی کاروباری اور رابطے کی زبان بنا دیا ہے جس کی وَجہ، سے ہزاروں کی تعداد میں علاقائی اور مقامی زبانیں شدید خطرات کی زد میں ہیں اور وہ اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسی تناظر میں ایک نقطہء نظر کے تحت انگریزی زبان کو سامراجی زبان بھی کہا جانے لگا ہے۔

اس وقت ہمارا مقصود اس پر بحث کرنا نہیں کہ کون سی زبانیں اس زد میں ہیں اور اس خطے کی کن علاقائی اور مقامی زبانوں کو بقا کی جنگ لڑنا مقصود ہے اسی طرح ایک نقطہء نظر ہے کہ زبانیں ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں ہی تحفظ بھی حاصل کرتی ہیں اور ترقی بھی کرتی ہیں اس کے بالمقابل یہ تصور بھی ہے کہ وہی زبانیں محفوظ رہتی ہیں جن کا تعلق اپنی زمین، تہذیب اور ثقافت سے ہوتا ہے۔ فضائی حملوں میں مسلط کی گئی زبانیں زیادہ خطرے میں ہیں۔ لیکن یہ صداقت بہ ہرحال اپنی جگہ مصدقہ اور مسلمہ ہے کہ جب تک کوئی زبان بولنے والی ایک ’ماں‘ بھی موجود ہے ’مادری زبان‘ مر نہیں سکتی۔

بہ ہر حال حرفِ آخر کی اس تناظر میں صداقت یہی ہے کہ رابطے اور مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اگر انسانی ذہن کی موجودگی اور تخلیقی صلاحیت لازم ہے تو اس کے لیے دو ہڈیوں کے درمیان موجود گوشت کا وہ لوتھڑا بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے جس کو زبان کہا جاتا ہے اسی کا اوپر نیچے اور ٹیڑھا ہونا یا اس کے مختلف حصوں کا استعمال لفظوں کی بناوٹ اور ادائی کرتا ہے۔ لیکن اس زبان میں کچھ اور صلاحیتیں بھی ہیں جن کا تعلق پیٹ سے ہے۔ یہ زبان ہر ذی روح کے پاس ہے درندے، پرندے، چرندے سب کے جبڑے کی ہڈیوں میں گوشت کا لوتھڑا موجود ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ لفظوں کی ادائی میں ہونٹوں کے ساتھ جبڑے کی یہ ہڈیاں بھی بنیادی معاون اور مددگار ہوتی ہیں۔ لیکن اس کو پیٹ کے داخلی دروازے میں رکھا گیا ہے اور اس میں حیات کے تمام جوہر بھی رکھے گئے ہیں۔ اسی سے ایک طرف تو پیٹ کی بھوک اور پیاس کی ضرورت کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف یہی زبان ذائقوں کی نشاندہی کرتی ہے اسی سے اچھی بھلی یا بُری بھلی، مٹھاس اور کڑواہٹ یا پھر پیٹ میں داخل ہونے والی خوراک کی تلخی اور ترشی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی زبان سے نکلنے والا پانی جو کبھی کبھی رالیں بھی بن جاتا ہے اس سے انسان کی ’چسکا پسندی‘ کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہی وہ چسکا پسندی ہے جس کی بے شمار شکلیں ہوتی ہیں اور جب اس میں اضافہ ہوتا ہے تو جائز اور ناجائز کی تمیز بھی ہو جاتی ہے بس ہر چیز کو اپنی گرفت میں لینے اور اُسے پیٹ میں دھکیلنے کی خواہش غالب رہتی ہے۔ یہ الگ بات کہ اس خواہش کی تکمیل میں انسانی جسم کے تمام اعضا ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں صرف پیٹ ہی پیٹ باقی رہ جاتا ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ اس خواہش اور طلب کو بھوک کا نام دیا جاتا ہے اگرچہ اس بھوک کی بے شمار شکلیں اور صورتیں ہیں جن کو مختلف نام بھی دیے جاتے ہیں۔ بہ ہرحال بابا فرید جی نے کہا تھا… یہ ’چھٹا رکن‘ ہے اس کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہی وہ بھوک ہے جس نے معاشرتی اور معاشی تقسیم کو جنم دیا۔ اونچ نیچ کے ساتھ امارت اور غربت کے درمیان فاصلہ پیدا کِیا انسانی مساوات کے بنیادی مقصد میں نفرت اور تعصب کو دیوار بنایا۔ بابا فرید جی نے اس عدم مساوات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا:

یہ بھی پڑھئے:  کہانیوں کے اندر بھی کچھ کہانیاں ہیں

اکناں آٹا اگلا، اکناں نہیں لُون

کچھ لوگوں نے تو غاصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کے خوف کو بھوک کا نام دے کر اناج کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کے پاس آٹے میں ملانے کے لیے نمک بھی نہیں تا کہ وہ ’روٹی‘ کو ہاضم اور ذائقے دار بنا سکیں۔ اسی معاشی تقسیم پر انتباہ کرتے ہوئے بابا فرید جی نے صوفیانہ انداز میں کہا:

کوٹھے منڈپ ماڑیاں ، ایت نہ لاویں چت

مٹی پئی اولویں ، کوئی نہ ہو سی مت

یعنی اے انسان! جاگیروں، جایدادوں اور اونچے اونچے محلات کے ساتھ دِل نہ لگانا جب تم مٹی کے ڈھیر میں دب جاؤ گے تو اس وقت تمھارا کوئی دوست نہیں ہو گا۔

لیکن… بھوک کب کسی انتباہ کو خاطر میں لاتی ہے وہ تو جتنی بڑھاؤ، بڑھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہے اس کی کوئی حد سرحد نہیں رہتی۔ اب تو اس کی انتہا اس صورت میں بھی آ گئی ہے۔ جسے عالمی سرمایہ داری کا نام دیا جاتا ہے جو کسی جغرافیائی اور علاقائی حدود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں بل کہ تمام اقدار کو روندتی ہوئی ہر صورت آگے بڑھ جانے کو تیار ہے، کوئی انسان قابلِ احترام ہے۔ انسانیت اور نہ ہی یہ کائنات بل کہ کائنات کو بھی وسائل دولت میں اضافہ کا ایک عنصر قرار دیا جا رہا ہے۔

انسانی جسم میں پیٹ کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ چند انچ کی ان حدود کو سات سمندر بنا دیا جائے۔

بھوک جب پیٹ سے باہر نکل کر جسم میں پھیل جاتی ہے تو رُوم رُوم سے چھلکنے لگتی ہے کچھ بھی پنہاں نہیں رہتا۔ بھوک کتے کی زبان پر رال کی طرح بہنے لگتی ہے، لوگ اسے گرم موسم کی پیاس بھی کہتے ہیں لیکن پیاس بھی تو بھوک ہی کی ہمشیر ہوتی ہے اسے بھی بالآخر پیٹ میں پہنچنا ہوتا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ پیٹ کا آج تک کوئی حجم کر سکا ہے اور نہ ہی کسی سے بھوک کی تجسیم ہوئی ہے شاید اگر ایسا ہو جاتا تو آج بھوک اور سیر شکمی کے درمیان طویل اور لامحدود فاصلہ نہ رہتا۔

اصل مسئلہ تو پیٹ کو اس کی حدود میں رکھنا اور اسے ادھر اُدھر پھیلنے سے روکنا ہوتا تا کہ وہ جسم کو جسم ہی رکھے اور اِدھر اُدھر بڑھنے پھیلنے سے منع کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب حدود سے یہ تجاوز ایک بار ہو جاتا ہے تو پھر… عادت بھی بن جاتی ہے اور بہت کچھ ناممکن ہو جاتا ہے بازو بڑھنے اور ہاتھ پھیلنے لگتے ہیں سب کچھ اپنی گرفت میں لینے اور پکڑے کے لیے سب کچھ پیٹ کے نام پر ہوتا ہے۔

بھاگ دوڑ اور جدوجہد

لوٹ مار اور چوری

ڈاکا زنی اور راہ زنی

بے ایمانی اور کرپشن

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان میں کوئی خود پیٹ میں داخل نہیں ہوتا۔ پیٹ میں تو اتنی گنجایش ہی نہیں ہوتی، لیکن چند انچوں کے حدود اربع میں ہزاروں میل سمٹ جاتے ہیں۔ جایدادیں، ملکیتیں، فیکٹریاں اور کارخانے، بینک اور پلازے سب کچھ سمٹ جاتا ہے بل کہ پیٹ کے سمندر میں ’آبدوزوں‘ کی طرح چِھپ جاتا ہے اور اردگرد کے ملکوں پر بھی حملہ آور ہونے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ تو پھر اس پیٹ کو کیا نام دیا جائے۔

کچھ لوگ اسے کوڑادان بھی کہتے ہیں جو کچھ بھی پھینکتے جاؤ، اس میں سمٹتا جاتا اور پھر گلنے سڑنے لگتا ہے۔ تعفن اور بدبو سے ماحول خراب ہونے لگتا ہے تو اس کو خالی اور صاف کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ پرانے زمانے کے طبیب ہر مرض کے علاج سے پہلے اس گٹر کی صفائی ضروری سمجھتے تھے… آج کل طبیبوں کا نہیں ڈاکٹروں کا زمانہ ہے زمین کی ’جڑی بوٹیوں‘ سے براہِ راست علاج نہیں ہوتا بل کہ ’ایسڈز‘ تیار کیے جاتے ہیں یہ الگ بات کہ ’ایسڈز‘ تک پہنچنے سے پہلے یا پھر انھیں نئی شکل صورت دینے تک بہت کچھ اور بھی شامل ہو جاتا ہے جو سائیڈ افیکٹس کا سبب بنتا ہے ایک مرض سے دُور بھاگتے ہوئے کچھ اور امراض دامن پکڑ لیتی ہیں۔ لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ انسان کا مظاہر قدرت پر اعتماد یقین بھی کمزور ہو گیا ہے انسانی تہذیبی سفر میں جب زمین اور علاقائی تقسیم کی بات ہوتی ہے انسانی آبادیوں کا ذکر ہوتا ہے تو پھر یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہاں محض انسانوں کے لیے ہی نہیں چرندوں پرندوں اور درندوں کی خوراک کا ہی نہیں بل کہ موسمی اثرات کے نتائج میں ابھرنے والے امراض کے علاج کا بھی سامان ہے۔ خوراک کی شکل میں بھی… اس تناظر میں ایک اور حقیقت ہے کہ دودھ اور گوشت کے لیے پالے جانے والے جانوروں کے علاج کو علیحدہ باقاعدہ شعبہ بن گیا ہے یہ تو آج کی بات ہے سیکڑوں ہزاروں سال پہلے کیا ہوتا تھا یہ جانور موسمی بیماریوں سے کیسے محفوظ رہتے تھے یا انھیں ان سے کیسے نجات حاصل ہوتی تھی؟ ان کا کون سا طبیب اور ڈاکٹر ہوا کرتا تھا… وہ موت سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کیسے کرتے تھے یا پھر وہ خاموشی سے خود کو موت کے حوالے کر دیتے تھے۔ یہ سوال آج کی سائینس کے سامنے آ چکا ہے اور پتا چلتا ہے کہ زمین پر پھیلی ہوئی خودرو جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں میں ہی ان کا علاج موجود تھا اور وہ اپنی ’اینیمل سینس‘ کے تحت اس سے استفادہ بھی کرتے تھے۔ ان جنگلی جانوروں کے تجربات سے ہی آج کا ترقی یافتہ انسان فائدہ اُٹھا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  کیا واقعی پرائیویٹ ادارے بہترین تعلیم دے رہے ہیں؟ | بلال بھٹی

’اینمل سینس‘ کی بات ہے تو پھر جانوروں کی سونگھنے کی صلاحیت کا اعتراف کرنا بھی لازم ہو گا انسان تو اپنی چھٹی حس پر بہت فخر کرتا ہے ہمارا دعویٰ ہے کہ جانوروں کی سونگھنے والی صلاحیت ’ساتویں حس‘ کے نام سے جانی سمجھنی چاہیے۔ اس تناظر میں ایک دلچسپ اور تلخ سچائی ہے کہ خوب صورتی کے لیے درآمد کِیا گیا ایک ایسا پودا بھی ہے ’بھیڑ بکریاں‘ جس کے نزدیک نہیں آتیں وہ اس وقت محتاظ ہوتی ہیں کہ اس کا زہر آلود پتّا سونگھنے سے بھی گریز کرتی ہیں کھانا تو دُور کی بات ہے۔ مبادہ وہ خود کو اپنے ہاتھوں سے موت کے حوالے کر دیں… حال آں کہ وہ بھوک مٹانے اور پیٹ کے دوزخ میں ایندھن ڈالنے ہی باہر نکلتی ہوتی ہیں۔ بہ ہرحال… بات تو بھوک اور پیٹ کی ہے۔ جانور اس لحاظ سے تو قابلِ صد احترام ہیں کہ وہ کل کی فکر میں مبتلا ہو کر نہ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں نہ پیٹ کو بڑھاتے ہیں، بھوک ستاتی ہے یا پھر ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے تو پھر خوراک کی تلاش میں نکلتے، پیٹ کی بھوک مٹاتے اور آرام کی گہری نیند سوتے ہیں۔ اپنی بھوک کو جسم کے دوسرے حصوں میں تجاوز نہیں کرنے دیتے یہی تو انسان اور جانور میں فرق ہے۔ اب آپ ہی بتائیے، قابلِ احترام ہونے کا حق کسے حاصل ہے۔ جانور کو یا پھر جانور سے بھی بدنما اور بدتر انسان کو…جو اشرف المخلوقات ہونے کا بھی دعویدار ہے اور سب کچھ پیٹ کے سمندر میں غرق کیے جا رہا ہے … جہاں حرص، ہوس، لالچ اور طمع کی آبدوزیں صبح شام حرکت کرتی رہتی ہیں۔

کیسا ہے یہ پیٹ سمندر

نہ کوئی باہر نہ کوئی اندر

۔٭۔

حالیہ بلاگ پوسٹس