Qalamkar Website Header Image

سیاسی مرغوں کی لڑائی اورعلاقائی تبدیلیاں – اکرم شیخ

ہمارے سیاستدانوں کواگر کچھ پتا ہی نہیں تو وہ اس ملک کے بیس کروڑ مجبور اور مقہور، محروم اور مظلوم، غربت کی لکیر سے تیزی کے ساتھ لڑھکتے عوام کو بھلا کیا بتائیں گے۔ ایک طرف ترقی کے لیے زمینی دعوے ہیں تو دوسری طرف کرپشن کے الزامات کا ہے ہنگم اور بے مقصد شعور…. انھیں یہ نہیں پتا کہ سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہی کرپشن پر ہوتی ہے اس کرپشن کو آج کی مارکیٹ اکانومی میں کمیشن کا نام دیا جاتا ہے اور یہ کمیشن تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں وہ خواہ کچھ بھی تیار کرتی ہیں اسے بیچنے کے لیے مڈل مین کو ادا کرتی ہیں یہ کھیل اوپر سے نیچے تک چلتا ہے…. یہی بے مقصدیت سیاسی شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کا باعث بنی ہوئی ہے کسی کو کچھ پتا نہیں کہ پاکستان کے ارد گرد کیا ہورہا ہے افغانستان ایک بار پھر نئی تحریک کاری اور زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کی خواہش اور کوشش کا مرکز بن رہا ہے تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں تو ایسے میں اگر افغان بارڈر کو مزید محفوظ نہ بنایا گیا تو اس کے اقتصادی راہداری کے لیے خطرات کہاں تک بڑھ سکتے ہیں اور پاکستان کے دشمن بلکہ ایشیا میں ابھرنے والے سیاسی اور معاشی اتحاد پر کیسے اور کہاں سے حملے ہو سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اگر کسی کو اس کا شعور اور احساس ہو گا تو وہی کچھ بتائے گا. ہمارے سیاستدانوں نے اپنی جہالت چھپانے کے لیے بدقسمت عوام کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پر مرکوز کر دی ہیں جہاں سے وکلا کی دلچسپ اور مقدمہ سے غیر متعلقہ آوازیں سنائی دیتی ہیں اور پھر عدالت کے بعد میڈیا اپنی مادر پدر آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی عدالتیں سجا کر طبع آزمائی کرتا ہے۔ کوئی توہین عدالت کی بات کرتا ہے نہ کہیں سے اس خود ساختہ آزادی میں ضابطہ اخلاق کی صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے۔ سیاستدان ہی نہیں وہ دانش ور صحافی اور تجزیہ کار بن کر آنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ملازم بھی خوش ہیں کہ ان کے چہرے ان کے بچے دیکھ بھی رہے ہیں اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور ملنے والوں کو دکھا بھی رہے ہیں۔ ورنہ کہاں دانش ور،کہاں تجزیہ اور کہاں زمینی حقائق؟ ویسے بھی کوئی "ٹاک شو” کبھی نتیجہ خیز نہ سنا گیا نہ دیکھا گیا۔ ابھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ وقت ختم ہو جاتا ہے۔ عوام کے پاس گھسے پٹے چہروں کی یاد کے سوا کچھ نہیں رہتا. ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے یہ بھی سیاستدانوں اور میڈیا والوں کے درمیان "بارٹر”ہے جس میں ایک دوسرے کی تشہیر و نمائش کے ساتھ عوام کو اصل حقائق سے دور رکھنے بلکہ گمراہ رکھنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
ہم اس وقت دو طرح کی خوشیوں کے اسیر ہیں انہی خوشیوں سے کشید ہونے والی "امیدوں "نے ہمیں اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدتِ ملازمت میں توسیع قبول نہ کی وقت پر علیحدگی اختیار کی ان کی جگہ نئی قیادت بھی سامنے آ گئی اور اس نے اپنے فرائض بھی شروع کر دیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف 39ملکوں کی مشترکہ فوج کی قیادت کرنے سعوی عرب بھی پہنچ گئے۔ ان کا پاکستانیوں نے بھرپور استقبال بھی کیا یہ استقبال جلوس کی شکل بھی اختیار کر گیا پاکستانیوں نے جنرل راحیل شریف زندہ باد کے نعرے بھی لگائے سعودی میڈیا نے اس کی کوریج بھی کی اور اس کی پاکستان میں تشہیر بھی ہوئی۔ ہمارا میڈیا یہ سوال کرتا رہا کہ وہ حکومت پاکستان کی اجازت سے نئی ذمہ داری ادا کرنے گئے ہیں یا پھر انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے "فوجی تجربہ "کو خود ہی مارکیٹ اکانومی کی اس دنیا میں رکھا اور اس کا فائدہ اٹھایا ہے؟ کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ ملک جلسے جلوس کی اجازت نہیں غیر ملکیوں کو تو ایسے تصور کی بھی مخالفت ہے وہاں یہ پذیرائی، استقبال اورتشہیر کو کیوں ضروری سمجھا گیا۔
ہمیں اس تفاخر کا احساس تو دلایا گیا کہ 39 ملکوں کی فوجی قیادت کسی اعزاز سے کم نہیں بات تو سچ ہے لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کے عوام کو کن مابعد اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا ہمارے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کی دیرینہ نوعیت کہاں تبدیل ہو گی اور کہاں اس کی ازسر نو ترتیب ہو گی اور کہاں ہم پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں مزید الجھن کا شکار ہوں گے؟ اس مشترکہ اسلامی فوج کا بنیادی ہدف کیا ہے ؟ اس کا مقابلہ داعش سے ہو گا، شام سے یا پھر حوثیوں سے؟ یا پھر شام کو بچانے میں مصروف روس کی فوج کے خلاف؟ ہماری فوجی قیادت کا تجربہ اور صلاحیت کن اسلامی ملکوں کے لیے فائدہ مند ہو گی۔کون سے اسلامی ممالک کے خلاف ہم اپنے 146پروفیشنلزم145 کو بروئے کار لائیں گے اور اس کا حتمی فائدہ کس کو ہو گا؟ کون ہے جو کچھ اسلامی ملکوں کی آزاد اور خود مختار سیاسی علاقائی اور دفاعی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتا اور وہ انھیں ہر قدم پر روکنا چاہتا ہے؟؟ ویسے اگر آپ اس تناظر میں دیکھنا چاہیں تو 80 کی دہائی کا وہ منظر نامہ دیکھ سکتے ہیں جب سوویت یونیئن کے خلاف جنرل ضیاءالحق کی قیادت میں افغانستان میں اسلامی جہاد شروع ہوا تھا.دنیا بھر سے ہمیں اسلحہ کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین بھی ملے تھے جن میں سعودی عرب کے اسامہ بن لادن بھی تھے جن کو ہماری سرحدوں کو پائمال اور حفاظتی اقدامات کو "جام "کر کے نشانہ بنایا گیا تھا. کیا ایک بار پھر اسلامی فوج کے نام پر مجاہدین کی تربیت تو نہیں ہو گی، اور کیا اب سعودی عرب کو مرکز بنا کر مشرق اور جنوب میں محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اس کے مابعد اثرات بھگتنے کو بھی تیار ہے۔ اور کیا اس کے سامنے پاکستان کے داخلی سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات کا ادراک نہیں جو ابھی تک افغانستان کے جہاد کے شاخسانے میں تازیانے کی طرح برس رہے ہیں. افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں کی ذرا بھی توجہ اس جانب نہیں کہ وہ مرغوں کی لڑائی کو ہی سیاست سمجھے ہوئے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس