Qalamkar Website Header Image

سلمان حیدر اور دوسرے بلاگرز کا معاملہ کیا ہے – اختر عباس

اظہار رائے ایک ایسا سیفٹی والو ہے جو معاشرے میں بڑے حادثے ہونے سے روکتا ہے۔ زندہ قومیں اسی لیے اظہار رائے کی آزادی کو اپنے معاشرے کا ایک ناقابل شکست ستون قرار دیتی ہیں جو اکثر دوسرے تمام امور سے برتر اور بالا ہوتا ہے۔ پروفیسر سلمان حیدر کا غائب ہونا ایک انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے خلاف ایک بیانیہ خاموش کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک انفرادی معاملہ نہیں بلکہ اس سلسلے کی کڑی ہے جوسوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلتی بحث کےنتیجے میں شروع ہوا تھا۔
‫سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی گمشدگی کے کہانی کا آغاز تقریبا دو مہینے پہلے راولا کوٹ سے رفعت عزیز نام کے ایک نوجوان کی گمشدگی سے ہوا ۔ رفعت عزیزسعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا اور چھٹیوں پر اپنے گھر آیا ہوا تھا۔ اس کے آنے سے کچھ عرصہ پہلے علاقے کی ایک مسجد کے باہر، جو جہادی نظریات کی وجہ سے مشہور تھی ، پمفلٹ بانٹے گئے۔ ان پمفلٹوں کی عبارت بقول احتجاج کنندگان دین کی تعلیمات کا مزاق اڑانے کے مترادف تھی۔ رفعت عزیز کو گرفتار کرنے کی ایک وجہ تو یہ مشہور ہوئی کہ انہوں نے یہ متنازعہ پمفلٹ بانٹے تھے۔ دوسرا الزام جو زیادہ سنگین تھا وہ یہ تھا کہ رفعت عزیز ، عاصم اختر اور کچھ دوسرے حضرات انگارہ اور بھینسا نامی پیجز کے ایڈمن تھے۔ رفعت عزیز کی گرفتاری کےبعدان صفحات پر ان کی صفائی میں جو رد عمل آیا اس سے بظاہر یہی تاثر ملا کہ شاید ان صفحات سے واقعی ان کا کوئی نہ کوئی تعلق تھا۔ بادی النظر میں یہ ایک تنہا کہانی تھی جس پر تھوڑے بہت شور کے بعد خاموشی چھا گئی۔‬
پچھلے دنوں اسلام آباد سے سلمان حیدر کو اٹھایا گیا تو کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔ سلمان حیدر فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، فن کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتےہیں ۔ان کی وجہ شہرت وہ نظم ہے جو کہ انہوں نے ملک میں رائج کفراور بدعت کے فتووں کے رواج کے خلاف کہی۔ ‬

میں بھی کافر تو بھی کافر‬

سلمان حیدر کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کی انسانی حقوق کی کاوشیں تھیں۔ وہ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والے ریاستی اقدامات پر کافی تنقید کرتے تھے۔ اس تنقید پر کافی لوگ چیں بہ چیں بھی ہوئے اور انہیں دھمکیاں بھی ملیں ۔ اطلاعات کے مطابق اغوا کے بعد سلمان حیدر کے رشتہ داروں کو فون کر کے بتایا گیا کہ وہ شور نہ مچائیں کیوں کہ کچھ دن بعد وہ خود بخود واپس آ جائیں گے۔ ان کی گاڑی بھی خیریت سے مل گئی۔ ان نشانیوں سے پتہ چلا کہ وہ شاید کسی حساس ادارے کی تحویل میں ہیں جس کی بعد میں وزیر داخلہ نے تصدیق بھی کر دی ۔‬
‬سلمان حیدر کے ساتھ ساتھ ایک درجن سے زیادہ سوشل میڈیا میں لکھنے والوں کو اٹھایا گیا۔ ان میں وقاص گورایہ،عاصم سعید اور نصیر رضا بھی شامل تھے جن پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بھینسا، موچی اور روشنی جیسے صفحوں کے ایڈمن ہیں۔ بعد میں یہ اطلاع بھی آئی کہ وقاص گورایہ کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم ٹرانسفر کی گئی ہے جس کے بعد یہ آپریشن کیا گیا ہے۔ اس کاروائی کے ساتھ ساتھ وہ صفحات بھی یا تو غائب ہو گئے جن کا الزام ان لوگوں پر لگایا جاتا ہے، یا ان پر ریاست اور مذہب کے حق میں پوسٹ شروع ہو گئیں۔ نتیجہ یہی اخذ کیا جاسکتا ہےکہ یا تو یہ صفحات واقعی ان لوگوں کے زیر ادارت تھے اور ان سے تفتیش کے دوران پاس وررڈ نکلوا لیا گیا ہے یا ان صفحات کو ہیک کر لیا گیا ہے اور اب ان کو پھنسایا جائے گا۔ سچائی کیا ہے شاید یہ وقت ہی بتائے گا۔‬
‬سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں اظہار رائے کا ایسا متبادل نظام ہے جس کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ جہاں سوشل میڈیا کی وجہ سے جعلی خبروں، اشتعال انگیز روایتوں، دہشت گردی کے پیغامات اور سماجی طور پر افراتفری پھیلانے والے بیانات میں اضافہ ہوا ہے وہاں سوشل میڈیا وہ کردار بھی ادا کر رہا ہے جو گٹن برگ کے پریس کی ایجاد سے یورپی نشاط ثانیہ میں ہوا تھا۔ بہت سارے موضوعات جرات تحقیق کے نشتر کے نیچے آئے ہیں۔ مذہبی رجعت پسندی پر بحث ہوئی ہے، فقہی منافقتیں چاک ہوئی ہیں،ریاستی اداروں کے کردار پر تنقید ہوئی ہے ، کرپشن اور انفرادی ظلم کے بہت سارے واقعات اپنے منطقی نتیجے تک پہنچے ہیں۔‬
بھینسا، روشنی ، انگارہ، موچی اور ایسے صفحے ایک اور رواج کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ جہاں تنقید کرنا ہر شخص کا حق ہے، وہاں تنقید کے آداب جاننا بھی ضروری ہے۔ مذہب ، فقہ، ذات اور ریاست انسانی معاشرے کے وہ ستون ہیں جن پر انسانی معاشرے قائم ہیں۔ ان ستونوں پر مناسب تنقید کرنا ایک بات ہے ، عوام الناس کو اشتعال دلانا دوسری بات ہے۔ مذکورہ صفحات میں تاریخی روایات، مذہبی شخصیات اور قومی اداروں کی جس عامیانہ طریقے سے تضحیک کی گئی ہے وہ شاید ایک مغربی معاشرے کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اظہار رائے کی آزادی کی دلیل کا احترام کریں تب بھی دل شکنی اور نفرت انگیز تقریر کی حدود کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ شعلہ فشانی شاخ تراشی نہیں ہے بلکہ درخت جلانے والی ریت ہے۔‬
‬معاملہ جو بھی ہو، ماورائے قانون کسی بھی گمشدگی کو کسی بھی دلیل سے درست نہیں قرار دیا جاسکتا۔ آزادانہ اور منصفانہ دفاع ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اس طرح کی گمشدگی اور تشدد کے ذریعے اقرار جرم کم از کم کسی بھی حوالے سے قابل مذمت ہے۔ سلمان حیدر کے بارے میں کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ذات ممکنہ طور پر ایسے کسی بھی الزام سے بری ہے اور سرکار سوائے کسی واضح اور قاطع دلیل ثبوت کے ان کو رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔ ان لوگوں کے خلاف الزامات کو سامنے آنا چاہیے، اگر کوئی ثبوت ہے تو وہ بھی پیش ہونا چاہیے اور ان کو پورا حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ ‬
سلمان حیدر نے اپنے بیٹے کا نام سرمد رکھا تھا۔ سرمد نے اپنی رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑی قربانی دی تھی۔ سلمان حیدر بھی شاید اپنے اس امتحان سے واقف تھے۔ ان کا جرم سچائی کا جرم تھا۔ اس جرم کی سزا انہیں نہیں ملنی چاہیے۔اگر ہم نے بنگلہ دیش والے واقعے سے کچھ سبق سیکھنا ہے تو شاید وہ یہ ہے کہ سلمان حیدر جیسے سیفٹی والو اگر برقرار رہیں تو ہم بہت سارے سانحوں سے بچے رہیں گے۔ ‬

حالیہ بلاگ پوسٹس