غالباََ یہ واقعہ انگریز صحافی ایما ڈنکن نے اپنی کسی کتاب میں لکھا تھا۔ موصوفہ لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ انھوںنے جہاز میںبیٹھے اپنے ساتھی مسافر سے پوچھا "اگر کوی شخص آپ کے ساتھ کاروبار میں دھوکہ دہی کر دے اور آپ نے انگریزی میں اسے سنانی ہوں تو کیا کہیں گے” وہ صاف بولے کہ میںاسے دھوکہ باز اور مکار کہوں گا۔ ایما نے ان سے پوچھا کہ اگر یہی بات آپ نے اردو میں کہنی ہو تو؟وہ صاحب بولے کہ میںاسے کمینہ، ذلیل اور کم ظرف کہوں گا۔ آخر میں موصوفہ نے ان سے پوچھا کہ اگر یہی تاثرات آپ نے پنجابی میں ادا کرنے ہوں تو؟وہ صاحب تھوڑی دیر چپ رہے، ذرا سا مسکرائے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ پہلے اسے ماں بہن کی تین چار گالیاں دیں گے اور پھر دھوکہ بازی کا معاملہ چھیڑیں گے۔
میں نے پاکستان کے چاروں صوبوںمیںکافی عرصہ گزارا ہے۔ میں خود کو صحیح معنوںمیںپاکستان کا شہری کہہ سکتا ہوںکیوں کہ میں نے ہر علاقے کے لوگوں کے ساتھ نہ صرف دوستی رکھی ہے بلکہ ان کے ساتھ بہت قریبی معاشرت بھی رکھی ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں ایما ڈنکن کے اس مشاہدے سے پورا اتفاق کرتا ہوں۔ اظہار رائے کے معاملے میںجتنی آزادی پنجابی زبان میں ہے اتنی کسی اور زبان میں نہیں۔ اگر اظہار رائے کی کوئی تنظیم ہوتی اور وہ کوئی اشتہار بناتی تو اس اشتہار میں کسی پنجابی کو گالیاں دیتے ہوے دکھاتی۔ سندھی، بلوچی، پٹھان اور براہوی علاقوں میں لوگ گالی دینے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں، خواتین، بزرگوں اور کبھی کبھی بچوں کا بھی لحاظ کر لیا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں گالی کا کلچر پنجاب کےروایتی لباس تہبند کی طرح ہی ہے۔ اکثر زیر جامہ کی بندش سے آزاد۔پنجابی مرد اپنے ماحول کی قید سے آزاد ہو کر ایک بے خودی اور کسی حد تک وجد کی کیفیت میںگالیاںدیتے ہیں۔ بچہ جمورا بغل میںہو ،مستورات پردے میں ہوں اور پاس سے گزر رہی ہوں یا بزرگان اپنی داڑھیاںکھجا رہے ہوں۔ پنجاب کا گبھرو ایسے انہماک سے سناتا ہے کہ سب گھبرا جاتے ہیں۔
کبھی آپ کسی اہل زبان کو گالی دیتے ہوے دیکھیے۔ موصوف شدید تشنج کا شکار نظر آئیں گے۔ شین قاف کی درستگی کا خیال ہو اور لکھنوی تہذیب کی نادیدہ بیڑیاں پیروںمیںبندھی ہوں تو جو گالی وجود میں آسکتی ہے وہ غالب کے خطوط کا حصہ بن کے آنے والے نسلوں کو ملامت جلی اور مسرت خفی کی دہر ی کیفیت سے دوچار تو کر سکتی ہے، اپنے مخاطب کو کسی قسم کی اذیت سے نہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیںکہ لکھنو اور دہلی کے اہل زبان دشنام طرازی کی تراکیب تو تراش گئے لیکن اس لفظ کی تشریح کا ذمہ اپنے پنجابی دوستوں کو دے گئے۔ اپنے یوسفی صاحب بھی جہاں رنگوں کے مختلف شیڈز بتا گئے ہیں وہاں پاجی پنے کے بھی چند ہی رموز گنوا سکے۔ پنجاب والے اس موضوع پر کتابیں لکھ سکتے ہیں پنجاب میں دی جانے والے گالی دل سے دی جاتی ہے، تہہ در تہہ، نسل در نسل اس کا اثر محسوس ہوتاہے۔ دوسرے علاقوں کی گالیاںایک ساکت پتھر کی طرحہیں، لگا ، چوٹ لگائی اوررک گیا۔ پنجابی گالی دریا میں پتھر کی طرح ہے کہ لہر پر لہر چلی آتی ہے.
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو
جو الفاظ اہل زباں و اہل تہذیب مبتذل اور سماعتوں پر گراں سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، ہمارے پنجاب کے بھائی انہیں اپنے سینے سے لگا کر پچکار پچکار کر اگلے کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ اگر اردو گالی کوزے کو دریا میںبند کرنے کا نام ہے تو پنجابی گالی دریا کو سمندر میں کھلا چھوڑ دینے کا نام ہے۔ پنجابی گالی کھانے کے کئی دنوں بعد آپ کو سمجھ میں آتی ہے۔ آپ اپنے کسی عزیز کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں ، اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک آپ کی نظر اپنے بالوں کی خشکی پر پڑتی ہےاور آپ کو خیال آتا ہے کہ اس دن جو گالی دی گئی ہے اس کی رو سے آپ دونوں کے رشتے کی نوعیت اب بدل چکی ہے۔
ایک دفعہ میں نے لاہور کی ایک سڑک پر ایک پنجابی خاتون کو گالیاں دیتے دیکھا۔ موصوفہ کی اپنی صحت پر تو کوئی فرق نہیں پڑرہا تھا لیکن آس پاس سے گزرنے والے جہاں دیدہ مردوں کی کانوںکی لویں بھی سرخ ہو گئیں۔ میری زبان جلنے لگتی ہے سو میں ہرلفظ تو نہیں دہرا سکتا لیکن آپ نے ان خاتون کی تلخ نوائی سمجھنی ہے تو ہائپر لنک کی مثال لے لیں۔ جیسے ہی آپ اس لنک کو کلک کرتے ہیں آپ ایک نئے صفحہ پر پہنچ جاتے ہیں ۔ ان خاتون کی گالیاں بھی دراصل ایسے ہائپر لنکس تھے جو ان کے ممدوح کے شجرہ نسب کے پوشیدہ نکات چن چن کر عیاں کر رہے تھے۔ گالیوں سے یہ بھی پتا چل رہا تھا کہ موصوفہ نے خود اپنی زندگی کس کس دشت کی سیاحی میں گزاری ہے اور انہیں کیسے پیچیدہ امور ہائے گائناکولوجی و یورالوجی پر دسترس حاصل ہے۔
اصل میںپنجابی زبان ایک دہقان کی زبان ہے۔ سادہ، مخلص اور کسی قسم کے تصنع سے پاک۔ گونمنٹ کالج لاہور میں میرے استاد عارف ثاقب صاحب نے ایک دفعہ کہا تھا کہ زمین پر ضرور سویا کرو، کیوں کہ اس سے زمین سے آپ کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ سو پنجابی زبان بھی فطرت سے بہت قریب ہے۔. ایک دہقان زمیں کے قرب میں رہتا ہے۔ مٹی میں پھلتا ہے اور پھولتا ہے۔ جانوروں کی بولیاں سمجھتا ہے اور موسموںکے رنگوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ اس کے لہجے اور زبان میں وہ تہذیبی نفاست اور پیچیدگی نہیںہوسکتی جو کہ لکھنو اور دہلی کی تہذیبوں میںپائی جاتی ہیں۔ پنجاب کی گالیاں اس کے تہذیبی تشخص کا ایک اہم جزو ہیںاور انہٰیںاسی تناظر میںہی دیکھا جانا چاہیے۔ چاند کے چہرے پر سجے داغوں کی طرح


اختر عباس نہ لیفٹ کے ہو سکے نہ رائیٹ کے۔ دونوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش میں اکثر مار کھا جاتے ہیں۔ دہشت گردی، سیاست اور معاشرتی نظام کی بدلتی کہانیاں سناتے ہیں۔ انہیں آپ اس ٹویٹر ایڈرس پر فالو کر سکتے ہیں
@Faded_Greens
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn