چودہ اگست کا دن تھا، پردیس میں پاکستانیوں کی ایک محفل تھی۔ ہم عشق غارت گر کے ہاتھوں مصلوب کیے گئے منصور ٹھہرے ، ہمیشہ غلط جگہ غلط ہی نعرہ لگایا۔ جینز اور پولو شرٹوں کےبیچ میں کرتا پہن کر آ گئے۔ لباس کے معاملے میں ہمیشہ خود سری دکھائی ہے۔ ہمیشہ وہ پہنا ہے جو دل کو بھایا ہے۔ سبز رنگ اچھا لگا تو اوڑھ لیا۔ سبز بھی چبھتا ہوا ۔ سو یاروں نے پھبتیاں تو خوب کسیں۔ ہم نے بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا کہ آی ایم اے ڈسکو ڈانسر اور جلنے والے کا منہ کالا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن پھر کسی نے ہرا طوطا کہہ دیا۔ مجھے یہ لفظ ہمیشہ برا لگتا ہے۔منبر پر بیٹھ کر کفر کا فتویٰ دینے والی زہریلی زبان سے نکلے ہوے حرف کی طرح۔ طعنہ ہی تو ہے، تھوڑا بہت استہزا اور بہت ساری حقارت ۔ یہ سبز بھی کیا رنگ ہے ؟ ہماری اشرافیائی حس لطافت پر بھاری، مغرب سے آئے فیشن سے باہر ایک پینڈوانہ رنگ۔ ہم لوگوں کو سب سے زیادہ ڈر آؤٹ آف فیش ہونے سے لگتا ہے۔ یہی سبز رنگ کا کرتا اگر حمزہ عباسی پہنتا تو شاید فیشن بن جاتا اور شاہ رخ خان پہنتا توکیا ہی بات تھی۔ لیکن شاہ رخ کیوں پہنے گا۔ دس از ناٹ سیونٹیز مائی ڈئیر۔ اس وقت خواتین میں پاسٹیل کلر ان ہیں اور مردوں کے لیے بلیک اور وایٹ ہی سیف بیٹ ہے۔ او ایم جی۔ کوی جنگلی ہی اتنے آوٹ آف سیزن کلر ٹرائی کر سکتا ہے۔ یو نو واٹ آئی مین ؟
دیکھیں جی۔ میں خاندانی شیعہ ہوں۔ سینہ پیٹنے والا ، نیاز کھانے والا،نوحے سننے والا۔ میرا دعوت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی میں سنی تحریک کو ایک معصوم سیاسی جماعت سمجھتا ہوں۔ مجھے لیکن الیاس قادری صاحب اچھے لگتے ہیں۔ ان کے مزاج میں ایک مضحکہ خیز سادگی ہے جو مجھے واعظ بلند کلام کے مقفع مسجع کلام سے اچھی لگتی ہے۔ حدیث ہے کہ مومن سادہ اور بھولا ہوتا ہے۔ مجھے ان کو دیکھ کر موسیٰ ؑکا سفر یاد آ جاتا ہے۔ موسی ٰؑبڑے پیغمبر تھے۔ جلالی قسم کے۔ موسیٰ ؑ کی شریعت سارے ابراہیمی مذاہب کی بنیادی شریعت ہے۔ غسل اور وضو کے آداب والی۔ ترتیب اور ترتیل کے ساتھ نماز والی۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار والی۔ موسیٰ ؑ کو اللہ کے پاس جانا تھا۔ ایک پینڈو ملا جو چہچہا رہا تھا: میرے اللہ تو کتنا اچھا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں تیرے بال سنواروں، ان میں تیل ڈالوں، تجھے نہلاوں اور اچھے اچھے کپڑے پہناؤں۔ موسیٰ ؑ کے جلالی ایمان کو اللہ کی توہین پسند نہ آئی۔ اس پینڈو کو جھڑک دیا۔ اللہ نے طور پر موسیٰ ؑ سے شکایت کی کہ میرے محبوب کو تو نے ڈانٹا۔ اس کا سادہ اور بے وقوفانہ کلام مجھے اچھا لگتا تھا۔ موسیٰ ؑ نبی تھے ، فورا جاکر معذرت کی۔
مجھے الیاس عطاری کا کیلے سیدھا کرنا اچھا لگتا ہے۔ زبیدہ آپا کے ٹوٹکے اپنی جگہ مگر مجھے ان کا کھیرے کاٹنے کا طریقہ بھی ٹھیک ہی لگتا ہے۔ اپنے کپڑوں پر نبی ﷺکی جوتیوں کا سٹکر لگاتے ہیں، ٹھیک ہے کلر کمبنیشن خراب ہوتا ہےمگر ہو سکتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو اچھا لگتا ہو۔ مجھے ان کا سرخ گلاب کے پھول داڑھی میں لگانا بھی پسند ہے، چاہے حسن ؑ شہریار اور نومی انصاری دونوں آکر قائل کرنےکی کوشش کریں۔ مجھے یہ اچھا اس لیے بھی لگتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ابو تراب ؑ کی کنیت مٹی کے ان نشانوں سے تھی جو ان کے کچے فرش پر سوتے وجود نے دھرتی سے ادھار لیے تھے۔ یثرب کے دربار میں ابوجہل اور بو لہب کی قریشی بولی نہیں بلکہ بلال کی ش اور س کو مخلوط کرتی حبشی زبان قبول ہوئی ہے۔ کربلا میں یزید کی فوج میں اکڑتے حفاظ قران نہیں بلکہ حسین ؑ ؑکے لشکر میں موجود عیسائی غلام جون سرخرو ہوئے ہیں۔ میں جذبے کے شیرینی سے ٹپ ٹپ کرتے گلاب جامن کھانا چاہتا ہوں،مجھے آپ چمکیلے کاغذ میں لپٹی چاکلیٹ نہ دیں۔
الیاس قادری مجھے ایک اور وجہ سے بھی اچھے لگتے ہیں۔ انہیں سبز رنگ سے محبت ہے۔ سبز رنگ امام حسن ؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یاد ہے نا۔ جنت سے دو جوڑے آئے تھے۔ ایک حسین ؑ کاسرخ رنگ کا جوڑا۔ شام غریباں کے اندھیرے میں کربلا کی ریت سے ملتا جلتا سرخ رنگ۔ ایک حسن ؑ کا سبز رنگ کا جوڑا۔ زہر کے رنگ کی طرح سبز جس نے ان کے کلیجے کے ٹکروں سے پیالہ بھر دیا تھا۔ سبز پگڑی والوں میں مجھے حسن ؑ کی سنت کا رنگ نظر آتا ہے۔ حسن ؑ ڈرپوک نہیں تھے۔ العیاذ باللہ۔ علی ؑ کا بیٹا اور ڈرپوک؟ نہروان میں خیبر کے فاتح نے کہا تھا کہ میری طرف سے اس جوان کو روک لو۔ کیسے بڑھ چڑھ کے حملے کیے ہوں گے کہ خدا کے شیر کو بھی تشویش ہو گئی۔ حسن ؑ اپنی خلافت کے حق کو بھی بخوبی جانتے تھے۔ آخرشقشقیہ کے خطبوں کے وارث تھے۔ لیکن پھر بھی خلافت کی باگ رکھ دی کہ کہیں فتنہ نہ ہو جائے۔ جیسے سقیفہ کے بعد علیؑ نے رکھ دی تھی۔ حسین ؑ کی سنت تو زندہ ہے ہی حسن ؑ کی سنت بھی یاد رکھی گئی ہے۔ بلھے شاہ ؒمیں، با یزیدؒ میں، بابا فریدؒ میں، داتا گنج شکرؒ میں۔ صلح جوئی کی، امن کی ۔ یاد ہے نا کیسے مسجدیں راتوں رات سرکاری اسلام پر، سعودی اسلام پر، ڈالر کی کمائی پر پلتے اسلام پر، جہاد کی دہائی پر چلتے اسلام پر مائل ہوئیں۔ جب رات کی سفیدی میں سفید پوش آئے اور ساری سبز مسجد کو چونا پھیر گئے۔ اس وقت بھی فتنہ ہو سکتا تھا، اس وقت بھی فساد ہو سکتا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ صلح اختیار کی بلھے شاہؒ والی صلح ، شاہ فرید ؒوالی صلح ، امام حسن ؑ والی صلح جوئی۔
امام حسن ؑ کے حصے میں کچھ قربانیاں اور بھی ہیں۔ صلح بھری زندگی کے بعد جنازے پر تیروں کا برسنا اور بھای حسین ؑ کے قتل کے بعد دو سو سال تک شام کے منبروں پر علیؑ کی اولاد پر طعن و تشنیع کا جاری رہنا ۔ یاد ہے نا کہ جب علی ع شہید ہوئے تھے تو شام کے بازار میں کسی نے پوچھا تھا کہ علیؑ کا نماز سے کیا تعلق؟ جس کو صبح کے سورج نے سوتا نہیں دیکھا اس کو لکڑیں کے پالانوں نے دشنام دیا۔ یہ سبز کے چاہنے والوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب صدیوں بعد اپنے دیس میں بھی مسجدیں بدلی جاچکیں اور جب تاجِ حکمرانی گروری رکھا جا چکا تو حقارت کے دفتر کھولے گئے۔ ہری پگڑی، اللہ میاں کے طوطے، چمونے اور نہ جانے کیا کیا نہ کہا گیا۔ جنازے یہاں بھی محفوظ نہ رہے۔ مزار یہاں بھی تباہ ہوئے۔ کبھی داتا ؒصاحب، کبھی نورانیؒ صاحب، عبداللہ شاہ غازیؒ۔
یزید کے وارثوں کا مجھے دکھ نہیں۔ ان کے کسی نیزہ کا، کسی بارود کا یا دشنام کا مجھے غم نہیں۔ دکھ مجھے ان حسین ؑ کے نام لیواؤں کا ہے جو ان ناموں اور گالیوں کے ناشر ہیں جو یزید نے حسن ؑ کے چاہنے والوں کے لیے ایجاد کیں۔ مجھے ہرے طوطے اور ایسے ہر لفظ پر اعتراض ہے جو ایک ایسے طبقے کا مزاق اڑائے جو اپنے عشق کے اظہار میں زمانے کے جدید فیشن سے آؤٹ ہیں ۔ ذکر کی یہ بے ڈھنگ اور الٹی سیدھی محفلیں بندوقوں اور تلواروں کی اس ریت سے تو بہتر ہیں جو کربلا سے شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر امام بارگاہ، ہر دربار اور ہر عبادت گاہ کے ارد گرد کالے بادلوں کی طرح منڈلاتی ہے۔
نوٹ : یہ مضمون میں نے چکوال والے واقعے سے پہلے لکھا تھا۔ اللہ کرے کہ چکوال والے پاگلوں کا ان سے کوئی تعلق نہ ہو اور اگر ہو تو یہ اس سے ایسے ہی دوری اپنا لیں جیسے بلھے شاہؒ نے ملا کے سخت کلام سے اختیار کی تھی۔
اختر عباس نہ لیفٹ کے ہو سکے نہ رائیٹ کے۔ دونوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش میں اکثر مار کھا جاتے ہیں۔ دہشت گردی، سیاست اور معاشرتی نظام کی بدلتی کہانیاں سناتے ہیں۔ انہیں آپ اس ٹویٹر ایڈرس پر فالو کر سکتے ہیں
@Faded_Greens
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn