وہ بھرے پرے سسرال میں شادی ہو کرآئی۔ شوہر چونکہ گھر کا بڑا بیٹا تھا اور سسر ریٹائر ہو چکے تھے تو گھر کی سب ذمےداری انہی کے سر پر تھی۔ دو نندیں اور تین دیورتھے۔ عرفان کے بہن بھائیوں میں ایک دو سال کا ہی فرق تھا مگر اسے احساس ہو گیا کہ سب بہن بھائی عرفان کے بہت لاڈلے تھے۔ خاص طور پر بہنیں۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی چھوٹی بہن جو کہ فرسٹ ائیر میں تھی وہ بھائی کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور بھائی کی پلیٹ میں ہی کھانا کھایا۔ گاڑی میں کہیں جانے لگے تو ضد کر کے فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھ گئی۔
فرسٹ ائیر کی طالبہ ماشاءاللہ بالغ تھی کیا میاں بیوی کے رشتے کے بارے میں اتنی انجان تھی کہ رات گئے انہی کے کمرے میں بیٹھی رہتی۔ دیور بھی ہر آئے گئے کے سامنے شکایت کرتے کہ ہمارا بھائی پہلے جیسا نہیں رہا اور عرفان یہ شکایت غلط ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔ فائزہ اپنی ساس کی طرف دیکھنے لگی کہ شاید وہ اس کے دیور نندوں کو سمجھائے کہ یہ بھائی کی بیوی ہے اس گھر میں نئی آئی ہے اسے گھر میں اور دل میں کچھ جگہ چاہئے ہو گی۔ بلکہ ساس اُلٹا فائزہ کو یہی سمجھاتی کہ بہن بھائیوں کا پیار جنون کی حد تک ہے۔ ان کے بیچ کوئی نہیں آ سکتا۔
خدا جانے جنون کی محبت کس بلا کو کہتے ہیں اور بیچ میں آنے سے اُن کی کیا مراد تھی۔ ساس اور سسر ہر وقت عرفان کے سامنے کہتے کہ بیٹا تب تک اپنا ہے جب تک بیوی نہیں آتی اور عرفان کبھی کبھی تو ان کی دلجوئی کرنے کو رات دیر تک اپنے امی ابو کے کمرے میں باتیں کرتے کرتے وہیں سو جاتے۔ نیز عرفان کی پوری کوشش تھی کہ سارے خاندان میں یہ ثابت کر سکیں کہ وہ اور مرد ہوتے ہیں جنہیں عورت کی ضرورت ہوتی ہو گی ہم تو نئ دلہن کو چھوڑ کر کبھی امی ابو تو کبھی بہن بھائیوں کے کمرے میں سو جاتے ہیں۔
بہنیں کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھیں بقول ساس کے وہ مہمان تھیں انہیں پرائے گھر جانا تھا۔ فائزہ دن رات سب کی خدمت کرتی پھر جب اس کے اوپر تلے چار سال میں تین بچے ہو گئے تو دن رات مصروفیت میں وہ اپنا آپ بالکل بھول گئی۔
فائزہ اس بات سے انجان تھی کہ عرفان اپنے آفس کی ایک لڑکی کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ آہستہ آہستہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دن اس لڑکی کو فائزہ کی سوتن کے روپ میں گھر لے آئے۔ وہ رات فائزہ کے لیے قیامت کی رات تھی۔ ماں باپ حیات نہیں تھے اور اُسے عرفان کے بہن بھائیوں کی طرح اپنے بہن بھائیوں سے جنون کی محبت کا دعوی تو نہیں تھا ہاں مگر اتنی محبت ضرور تھی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کی ازدواجی زندگی خراب کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
پرانا کمرہ فائزہ کے پاس ہی تھا جہاں وہ بچوں کے ساتھ رہنے لگی۔ ایک نیا کمرہ تعمیر کیا گیا تھا اٹیچ باتھ کے ساتھ وہاں عرفان اپنی نئی بیوی کے ساتھ رہنے لگے۔ عرفان اور اُس کی نئی بیوی کا کمرہ فائزہ کے کمرے کے برابر میں ہی تھا مگر بیچ میں دیواریں اتنی موٹی تھیں کہ وہاں سے کوئی آواز فائزہ کے کمرے تک آنا ممکن نہیں تھا مگر اکثر رات کو اسے عرفان اور اس کی بیوی کے کمرے سے سرگوشیوں کی آواز آتی رہتی۔ فائزہ کے پورے جسم میں انگارے سلگنے لگتے۔ کبھی کبھی تو کان میں روئی ٹھونسنی پڑ جاتی۔ شاید آنے والی وہ آوازیں فائزہ کا وہم تھیں ۔ شاید وہ ذہنی طور پر اُلجھنوں کا شکار ہو رہی تھی۔بچے بہت چھوٹے تھے اور بڑے بھی ہوتے تو ماں کا درد سمجھ نہ پاتے۔ اپنا دکھ کسے بتاتی۔ وہ کس ذہنی اذیت اور کرب سے گزر رہی تھی۔ کتنی تنہا تھی۔ وہ رات سے خوف محسوس کرنے لگی۔دعا کرتی کہ رات نہ آئے۔
اسے ہر حال میں اپنا ذہنی توازن قائم رکھنا تھا ورنہ وہ سب کے مذاق کا نشانہ بنتی۔ اسے بچوں کی خاطر خود کو مضبوط رکھنا تھا۔ زندگی بہت لمبی لگنے لگی تھی ۔ مگر زندگی تو گزارنی تھی نہ کسی طرح۔
موسم گزرتے رہے سردی گرمی کے کپڑے، بخار میں دوائی نیز کسی ضرورت کے لیے نہ تو اسے پیسے دیے جاتے نہ ہی وہ کسی سے کچھ کہتی۔ فائزہ کا اپنے بہن بھائیوں سے رابطہ کم ہوتے ہوتے تقریبا ختم ہو گیا تھا بس کبھی کبھار فون پر بات کر لیتی تھی۔ فون کال بھی صرف حال پوچھنے تک ہی محدود رہتی دراصل وہ کسی کو اپنا دکھ بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
آج فائزہ کے چھوٹے بھائی عادل کو اس کے گھر آنا تھا وہ عمر میں فائزہ سے بارہ برس چھوٹا تھا تو اسے بچوں کی طرح عزیز تھا۔ چونکہ عرفان کا موڈ جانے کیوں عادل کو دیکھ کر آف ہو جاتا تھاعادل بہت کم ہی فائزہ کے گھر آتا تھا۔ اسی شہر میں ہوتے ہوئے آج پانچ مہینے کے بعد اس کے گھر آیا تھا۔
عادل کچھ دیعرہی بیٹھا۔ کھانا نہیں کھایا بس چائے پی اور چلا گیا۔ شاید دو گھنٹے سے زیادہ نہ بیٹھا ہو مگر عرفان نے اس پورےعرصے میں عادل سے کوئی بات نہیں کی۔ اس بات کا فائزہ کو بہت دکھ ہوا۔ وہ آنسو پونچھتے ہوئے چائے کے برتن سمیٹ رہی تھی کہ ساس اس کے پاس آ کر بولی۔ اپنے بھائی کو ادھر آنے سے منع کر دو۔ جتنا بھی لاڈلا تھا وہ بچپن کی بات تھی اب جب کہ تم جانتی ہو کہ تمہارا شوہر پسند نہیں کرتا تو تم خیال رکھو۔ وہ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش اور تم بہن بھائیوں کے بیچ جتنی بھی محبت ہو گی۔ شوہر کا حق سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تمہیں ہر حال میں ہمیشہ شوہر کو ہر ایک پر ترجیح دینی چاہیے۔
دیکھا نہیں تمہارے بھائی کو دیکھ کر عرفان کا موڈ کتنا خراب ہو جاتا ہے۔ مرد ہے آخر۔اتنا مضبوط دل کسی کا نہیں ہوتا کہ محبت میں شرکت برداشت کرے۔ بولو محبت میں شرکت کون برداشت کر سکتا ہے آخر ؟ وہ ساس کا منہ تکتی رہ گئی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn