Qalamkar Website Header Image

میر مرتضیٰ بھٹو ایک دہشت گرد شہزادہ؟

راجہ انور ستر اور اسی کی دہائی کے معروف سیاسی ورکر اور پیپلز پارٹی کے جیالے مانے جاتے تھے۔ ان کو ذوالفقار علی بھٹو کے سٹوڈنٹ افیئر کے مشیر اور بھٹو کو جیل بھیجنے کے بعد خود سوزی مہم کو لیڈ کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ بھٹو کے جیل جانے کے بعد انہوں نے اول پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور بی بی شہید کے لیے تقریریں بھی لکھتے رہے۔ پھر ضیا دور کے ظلم و ستم سے بھاگ کر جرمنی میں پناہ حاصل کی۔ 1981 میں جرمنی سے میر مرتضیٰ بھٹو کے بلاوے پر کابل پہنچ گئے۔ کابل میں ان کے بقول ان کی حق گوئی اور باقی لوگوں کے بقول ان کی اسٹیبلیشمنٹ ایجنٹی کا پتا چلتے ہی مرتضی نے پل چرخی جیل بھجوا دیا جہاں سے وہ بقول ان کے اللہ کی مدد سے اور دوسرے لوگوں کی رائے میں روس اور افغانستان کی انقلاب پسند حکومت کی وجہ سے رہا ہو کر دوبارہ جرمنی چلے گئے۔

ان کو شہرت زمانہ طالب علمی میں لکھے گئے خطوط کے مجموعے نما ناول جھوٹے روپ کے دشمن سے ملی تھی جو ایک عرصہ تک کیمپس میں آنے والے نوجوانوں کی پسندیدہ کتاب رہی ہے۔ میرا راجہ انور سے تعارف بھی اسی کتاب کو پڑھنے سے ہوا تھا۔ بعد میں بن باس اور پل چرخی کی داستان پر مشتمل کتاب ‘قبر کی آغوش میں’ کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی کتاب دہشت گرد شہزادہ جب دو سال پہلے ڈھونڈنا شروع کی تو کہیں سے نہیں ملی تھی۔ پچھلے ہفتے یکدم جب نظر آئی تو فوراً اٹھا لی تھی۔

دہشت گرد شہزادہ میر مرتضیٰ بھٹو پر لکھی گئی ان کی تحریر ہے جس میں ان کی مسلح جدوجہد کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1995 میں لکھی گئی تھی۔ کتاب میں الذوالفقار کی کارروائیوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ کتاب پڑھ ایک دفعہ بھٹو خاندان سے شدید قسم کی نفرت پیدا ہوتی ہے۔ بھٹو خاندان اور خاص کر مرتضی بھٹو اس قدر کٹھور اور ظالم ہو سکتے ہیں یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب کی کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھتے ہوئے اسلوب میں عجیب تلخی محسوس ہوئی جو ہر نئے موضوع کے ساتھ ابھرتی اور واضح ہوتی نظر آئی۔ میرے لیے راجہ صاحب کا میر مرتضیٰ بھٹو پر ایڈی پس کمپلیکس کا شکار ہونے کا الزام پڑھ کر مزید پڑھنا دشوار ہو گیا تھا۔ کیونکہ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے لگا کہ راجہ صاحب اپنی نفرت کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے تھے۔ انہوں نے میر مرتضی بھٹو کو ایک گھامڑ اور اپر کلاس کے نکمے شہزادے کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن کچھ باتوں نے مجھے کنفیوز کر دیا اور ذہن میں سوال اٹھنے لگے۔

یہ بھی پڑھئے:  مادھو لعل ؒ کے شہر سے سندھ کنارے تک(2) -قمر عباس اعوان
دہشت گرد شہزادہ راجہ انور کی کتاب کا سرورق

ان اٹھنے والے سوال کا تعلق اسی کتاب کے ایک سال بعد میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر لکھی گئی حیدر جاوید سید صاحب کی تحقیقی کتاب دہشت گرد یا انقلابی سے ہے۔ گو کہ یہ کتاب مرتضی بھٹو کے قتل اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتی ہے۔ دوسری طرف یہ کتاب بہت نفاست سے چند صفحات میں ایسی معلومات مہیا کرتی ہے جو راجہ صاحب کی کتاب پر بہت سے سوال اٹھاتی ہے۔ دونوں کتابوں میں میرے نزدیک فرق ایک طرف لکھنے والا رپورٹر اور صحافی ہے جس نے دونوں طرف کے خیالات کو عوام کے سامنے پیش کر کے رائے دی ہے جبکہ دوسری طرف راجہ صاحب کوئی ذاتی خناس نکالتے نظر آئے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ حیدر جاوید سید لکھتے ہیں کہ ”مرنے سے تین دن قبل ایک اخبار نویس دوست کو مرتضی بھٹو نے کہا کہ ہم عسکری جدوجہد کی بجائے پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں تو اگلے دن اخبار میں چھپا ہوا تھا کہ مرتضی بھٹو نے خبردار کیا ہے کہ حالات عسکری جدوجہد کے آغاز کی طرف جا رہے ہیں“۔

دہشت گرد یا انقلابی حیدر جاوید سید کی کتاب کا سرورق

مثلا وہ میر مرتضیٰ جو راجہ صاحب کے بقول ایک بیوقوف، نرگیست زدہ، لوگوں کی باتوں میں لگنے والا ایک لو آئی کیو کا نوجوان کس طرح اٹامک انرجی میں پی ایچ ڈی کر سکتا ہے؟؟وہ راجہ انور جو خود سوزی کمیٹی کا چیئرمین تھا اس نے خود سوزی کرنے والوں کو بچانے کے لیے وہ اقدامات کیوں نہ کیے جن کا فیصلہ پارٹی قیادت کے سامنے کیا گیا تھا؟؟وہ رقم کہاں گئی جو پارٹی نے خود سوزی کرنے والے مقتولین کے گھر دینے کے لیے خودسوزی کمیٹی کو دی تھی جس کا چیئرمین راجہ صاحب تھے؟؟کیا وہ ٹیپو جسے راجہ صاحب نے معصوم ثابت کیا واقعی فوج سے بھاگا ہوا تھا یا آئی بی کا انفارمر تھا؟؟کیا طارق رحیم کے قتل کا ذمہ دار ٹیپو اور جمال عبدالناصر ہے جنہوں نے اسے قتل کیا یا مرتضیٰ بھٹو کے فلمی انداز کے حکم سے ٹیپو نے قتل کیا جیسا راجہ صاحب نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے؟

یہ بھی پڑھئے:  قلم کار کی سالگرہ : ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے - عامر حسینی

اپنی کتاب میں راجہ صاحب مبصر اور دانشور کے طور پر نظر تو آتے ہیں لیکن واقعات کے تکرار اور یک طرفہ رائے سے جو معلومات دی گئی ہیں وہ بھی اکتا دینے والی اور مشکوک ہو جاتی ہیں۔ یہاں راجہ صاحب ایک ماہر نفسیات کے طور پر سامنے تو آتے ہیں لیکن ان کی یہ نفسیات دانی بس ایڈی پس کمپلیکس تک محدود ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات پر بالکل روشنی نہیں ڈالتے کہ والد یوں بے گناہ قتل ہو جائے تو اولاد پر کیا بیتتی ہے۔ پھر اس ردعمل کو نفسیات میں کیا کہتے ہیں اور کیا یہ ردعمل غیر ضروری ہوتا ہے۔ یا یہ ایک عام انسانی رویہ ہے۔ ضیا کے دور میں جب راجہ صاحب خود مشکل حالات کی وجہ سے جرمنی جا بسے تھے تو ایسے میں مرتضیٰ بھٹو کے جارہانہ رویے پر ایسی کہانی باندھنے کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتضی بھٹو میں کجیاں تھیں اور کوئی انسان بھی مکمل نہیں ہے لیکن دہشت گرد شہزادہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ ذیب داستان کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »