احمد شاہ مسعود 2 ستمبر 1953ء افغانستان کے شمالی علاقے پنج شیر میں پیدا ہوئے تھے نسلاً تاجک تھے۔ 1970ء میں کابل یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی۔ 1979ء میں سویت یونین کے خلاف آخر تک لڑنے پر ان کو شیر پنج شیر کا خطاب دیا گیا۔ اس کے بعد طالبان کے خلاف زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہے۔ چونکہ نسلاً تاجک تھے تو اس سبب سے ہمارے اکثر پشتونوں میں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی یا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کو ایک جنگجو کے طور پر دیکھا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جمہوری اور سیاسی اعتبار سے بھی کافی فہم رکھتے تھے جمہوری نظام کو ہی افغانستان کا بہتر مستقبل سمجھتے تھے۔ 9/11 کے واقعے سے دو دن قبل 9 ستمبر 2001ء میں القاعدہ کے لوگ صحافیوں کے روپ میں ان کا انٹرویو کر رہے تھے جب کیمرے میں بم دھماکا ہوا اور وہ اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ موت سے قبل اگست 2001ء میں ایک پولش صحافی نے اس کا انٹرویو کیا تھا جس کا ترجمہ فہم کے مطابق پیش کرتا ہوں۔
پولش صحافی: یہ کیسے ممکن ہوا کہ قبل اور 90ء کے درمیان طالبان تحریک اتنی کامیاب ہوئی طالبان فورس کی اتنی فوری کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟
احمد شاہ مسعود : میرے خیال میں ہم تین اہم عوامل کو اس کامیابی کے پیچھے کارفرما کہہ سکتے ہیں۔
سب سے اولین 89ء میں روس کے انخلا کے بعد افغانستان کی اندرونی کشیدہ صورتحال تھی جس نے خانہ جنگی بھڑکائی مجاہدین کمانڈرز اختیار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے سب سے زیادہ بعض ہمارے اپنے ہم وطنوں جیسے گلبدین حکمت یار اور دیگر نے اس غلط کام میں بنیادی کردار ادا کیا اس رسہ کشی اور شورش نے میدان فراہم کیا۔
دوسرا بڑا سبب طالبان کی اندرونی و بیرونی امداد تھی جو پاکستان سے کھلم کھلا اور امریکا و سعودی عرب سے درپردہ ملتی رہی۔
تیسرا اہم کردار طالبان کی سیاسی چال تھی جس میں دین اسلام بطورِ ہتھیار استعمال کیا گیا خود کو طالبان یعنی دین کے طلبہ کا نام دیا گیا
یہ وہ تین بنیادی عوامل ہیں اور ان تینوں کا الگ الگ تفصیل سے تشریح کی جا سکتی ہے۔
صحافی: اگر آپ کے پاس فی الوقت جو معلومات ہیں اگر آپ 90ء کی دہائی کے اوائل میں واپس جاسکتے تو آپ کیسے آگے بڑھ جاتے، آپ اپنی ابتدائی پالیسی اور حکمت عملیوں میں کیا بدلاؤ لاتے؟
احمد شاه مسعود : میں نے جو عوامل بیان کیے ہیں وہ مکمل ہمارے اختیار میں نہیں تھے وہ زیادہ تر عام فطری نوعیت کے تھے جو افغان ملک اور اس کے علاقے کے مجموعی کردار سے متعلق تھیں ہم نے ان میں سے چند ایک پر قابو پایا لیکن بہت معمولی درجے کا۔ ایک چیز جس کو ہم کر سکتے تھے لیکن نظر انداز کیا گیا وہ مفاہمت تھی ہمیں سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہونا چاہئے تھا دوسرے لفظوں میں بطورِ جمہوری اپوزیشن جو اب طالبان کے خلاف متحد ہیں ہمیں بہت پہلے متحد ہونے چاہیے تھا یہ اب ہوا ہے کہ اسماعیل خان، عبدالرشید دوستم، حاجی عبد القادر اور میرے جیسے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں یہ اس وقت نہیں ہوا لیکن درحقیقت یہ اس وقت ممکن نہیں تھا کیونکہ پاکستان ان میں ہر ایک کے ساتھ الگ الگ ڈیل کرتا تھا ہم 90ء کی دہائی میں حالات پر قابو پانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں تھے۔
صحافی : 1996ء میں آپ کابل میں تھے جب طالبان آئے آپ کو امن اور داخلی خانہ جنگی ختم کرنے کی پیشکش کی، اس وقت ان کی اس پیشکش کو لوگ آپ کی تجاویز سے زیادہ اہمیت کیوں دیتے تھے؟
احمد شاہ مسعود : وہ کابل کے دروازے پر پہنچ گئے تھے تو اس وقت یہ سب باتیں عبث تھیں ایک بار طالبان کابل کے دروازے پر پہنچے تو ان کے یہ نعرے بے معنی تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں طالبان کو کابل کے دروازے پر دو سال تک لڑنا پڑا۔ ہم بنیادی طور پر اس لیے شکست کھا گئے کہ 95ء میں گلبدین حکمت یار نے چاراسیاب شہر چھوڑ کر کابل آئے جس کے نتیجے میں طالبان دراصل مشرق کے انہی علاقوں سے آئے جو پہلے حکمت یار اور حاجی قادر کے زیر اقتدار تھے۔ یہاں تک کہ 1995 اور 1996 کے اوائل تک کابل اور اس کے آس پاس کی لڑائی کے دوران مشکل صورتحال کے باوجود ہم نے کابل میں ہمارے خلاف دشمنی کا کوئی ہلکا سا اشارہ نہیں دیکھا جیسے کھلے عام احتجاج، ہمارے خلاف بغاوت یا ہنگامہ آرائی یا کسی نے ہمارے فوجیوں سے اسلحہ لیا ہو۔
لیکن یہی بات طالبان کے زیر انتظام خطوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جب گلبدین حکمت یار کی دغابازی کے سبب کابل دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک پر ہم اور دوسرے پر طالبان قابض تھے تب بھی کابل والے ہمارے خلاف نہیں لڑے حالانکہ وہ لڑ سکتے تھے۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں یہی طالبان ہیں جو اخلاقی طور پر وہاں شکست کھا چکے ہیں۔
آخرکار وه برباد ہوئے کیوں کہ وہ ہمیشہ کابل کو ایک دشمن مقام کے طور پر سمجھتے ہیں اور وہ اب بھی 1997 کے فسادات اور معاشرتی مایوسی کے اعادہ سے خوفزدہ ہیں۔ عام طور پر وہ جن علاقوں پر قبضہ کرتے ہیں وہاں عدم اعتماد کا شکار ہوتے ہیں۔
صوبہ تالقان میں ایک ایسا علاقہ ہے جب تین دن قبل طالبان نے ہمارے ٹھکانوں پر حملہ کیا اس کے نتیجے میں انہوں نے 14 کمانڈروں کو کھو دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ تالقان کے لوگوں سے عدم اعتماد اور خوف کا شکار تھے انہیں تالقان کے لوگوں پر اتنا شبہ تھا کہ انہیں وہاں سے اپنا زیادہ تر بھاری اسلحہ واپس لینا پڑا اس طرح کے واقعات نایاب نہیں جب ہم تالقان یا کسی دوسرے صوبے میں تھے تو ہمیں کبھی بھی ایسی پریشانیوں اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
صحافی : عام طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آپ اور طالبان کے مابین تنازعہ کی وجہ نسلی امتیاز ہے طالبان کو عام طور پر پشتون آبادی کی تائید حاصل ہے جبکہ آپ کی ولادت پنج شیر کے گاؤں باسارک میں ہوئی تھی جہاں زیادہ تر تاجک آباد تھے کیا آپ اپنے آپ کو افغان سے زیادہ تاجک محسوس کرتے ہیں؟
احمد شاہ مسعود : افغانستان میں ایک سال سے جاری لڑائی، نسلی اختلافات اور ان تمام مشکلات کے باوجود جو افغانستان کو دوچار کررہے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ ایک بھی شخص ایسا ہے جو نسلی معیار کے مطابق ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے یا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے حق میں ہے ہم سب متفق ہیں کہ ایک افغانستان ہونا چاہئے۔
صحافی : اس کے بعد طالبان کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کے کیا امکانات ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ آپ نے فروری 1995 میں کابل سے باہر میدان شار میں واقع طالبان اڈے پر، کابل کو تباہی سے بچانے کے لئے طالبان کے ساتھ کچھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی۔ آپ کافی عرصہ قبل امن معاہدے کی تجویز کے ساتھ بھی آگے آئے اس طرح کی تمام کوششوں کو اب تک مستقل طور پر طالبان مسترد کرتے رہے ہیں اس کے باوجود، کیا آپ کے خیال میں طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی امکان موجود ہے جس کی وجہ سے متفقہ افغان ریاست تشکیل پائے؟
احمد شاہ مسعود : ہاں، یہ اب بھی ممکن ہے بشرطیکہ پاکستان طالبان کی حمایت کرنے سے باز آجائے تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو ماضی میں ان کا مطالبہ تھا کہ اسلحہ ہمارے حوالے کریں پھر وقت کے ساتھ مطالبہ بدل دیا کہا اسلحہ پاس رکھیں اور زیر کنٹرول علاقے بھی، لیکن اس شرط پر کہ آپ کو امارت اسلامی افغانستان اور اس کے اصول و قوانین قبول کرنے پڑیں گے اور آپ کو دوسرا بڑا اور اہم عہدہ یعنی وزارت عظمٰی دیں گے۔ ہم نے یہ پیشکش مسترد کر دی مجھے یہ بہت مشکل اور کسی حد تک ناممکن نظر آتا ہے کہ طویل عرصے تک طالبان کے ساتھ باہمی تعاون کرنا یا ان کے ساتھ طویل مدتی اتحاد کا اشتراک کرنا۔ تاہم ہم صرف تبدیلی کی مدت تک طالبان کے ساتھ مخلوط حکومت کا اشتراک کرنے کا امکان دیکھتے ہیں جس کا اختتام جمہوری انتخابات کی صورت ہو ہماری رائے میں یہی واحد قابل قبول حل ہے۔ بصورت دیگر مستقل حل کے طور پر طالبان شامل ہوں انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
صحافی : فرض کریں کہ آپ مخلوط حکومت تشکیل دے کر یا پھر طالبان کے ساتھ حتمی جنگ جیت کر تنازعہ کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے مستقبل کی افغان ریاست کو کنٹرول کرنے والے کون سے بنیادی اصول ہوں گے؟ دوسرے الفاظ میں آپ کی مثالی افغان ریاست کے کون سے معاشرتی اور قانون سازی کے بنیادی اصول ہوں گے؟
احمد شاہ مسعود : میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی طرح پوری طاقت پر قبضہ کرنے اور افغان پالیسی پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں ہمارا مقصد افغانستان میں بالا دستی رکھنا نہیں ہے بالکل نہیں! جس کے لئے ہم جدوجہد کرتے ہیں وہ کچھ اور ہے افغانستان ایسا ہونا چاہئے جہاں ہر افغان خود کو جنس (مرد و زن، مذہب و مسلک، قوم و لسان) کی تفریق سے قطع نظر خوش نظر آئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بات کو اتفاق رائے کی بنیاد پر صرف جمہوریت اور جمہوری طور پر منتخب حکومت ہی یقینی بناسکتی ہے۔ اس کے بعد ہی ہم واقعی متعدد دیگر مسائل حل کرسکتے ہیں جو افغان عوام کو پریشان کررہے ہیں۔ اصل حل صرف اس طرح کی سیاسی اور معاشرتی صورتحال میں ہے اور صرف اس قسم کی انتظامیہ کے ساتھ جب تمام قبائل، تمام نسلی گروہ اور تمام لوگ خود کو منصفانہ نمائندگی کرتے ہوئے دیکھیں گے۔
صحافی : چلیں ہم تھوڑی دیر کے لئے نسلی مسئلے کی طرف لوٹ آئیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نسلی اکثریت طالبان کی حمایت کرنے والی پشتون ہے جبکہ آپ کی طرف یہاں اکثریت تاجک نظر آتی ہے حالانکہ آپ کی صفوں میں پشتون اور ازبک کی بڑی جماعتیں بھی ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح کے نسلی تنوع نے افغانستان میں مختلف گروہوں کے مابین کسی بھی قسم کی نسلی غلط فہمی اور تنازعہ میں نمایاں طور پر کردار ادا کیا، ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں مجاہدین اور طالبان کے مابین فوجی تنازعہ پیدا ہوا اور جو افغانستان میں کئی سال سے جاری خانہ جنگی کا ذمہ دار ہے؟
احمد شاہ مسعود : طالبان کے تصادم کا واحد عنصر یہ نہیں لیکن آپ نے جو کچھ ذکر کیا وہ یقیناََ ایک بنیادی وجہ ہے۔ میں آپ کو ایک مثال پیش کرتا ہوں طالبان مخالف جمہوری حزب اختلاف کے ممبر حاجی عبد القادر نسلاً ایک پشتون ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ تاجک گروہ بھی موجود ہیں جو بدخشان (شمال مشرق) اور قندھار (جنوب) میں طالبان کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی کی ناانصافیاں آج کی لڑائی کی ایک وجہ رہی ہیں لیکن جیسا کہ میں کہتا ہوں آج کی جنگ کا واحد مقصد اور وجہ نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سارے عوامل ہیں۔
ان میں سے ایک آج کے افغانستان اور مستقبل کے افغانستان کا تصور کے بارے میں سوچنے کا طریقہ ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ” آئیں اور وزیر اعظم کا عہدہ قبول کریں اور ہمارے ساتھ رہیں” اور وہ (طالبان) ملک کا سب سے بڑا عہدہ، صدارت سنبھالیں گے۔ لیکن کس قیمت پر؟ ہمارے درمیان فرق بنیادی طور پر معاشرے اور ریاست کے اصولوں کے بارے میں ہمارے سوچنے کے طریق کار کا ہے ہم ان کے سمجھوتہ کے شرائط کو قبول نہیں کرسکتے ہیں ورنہ ہمیں جدید جمہوریت کے اصول ترک کرنے پڑیں گے۔ ہم بنیادی طور پر اس نظام کے خلاف ہیں جسے "امارات افغانستان” کہا جاتا ہے میں ایک لمحے میں امارات کے سوال پر واپس آنا چاہوں گا۔ درحقیقت اس کے پیچھے پاکستان ہے جو افغانستان میں نسلی گروہوں کے مابین دراڑ گہرا کرنے کے لئے ذمہ دار ہے یہ "تقسیم اور حکمرانی” کا وہی پرانا طریقہ ہے۔ پاکستانی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس ملک کو طویل عرصے تک کوئی خود مختار اقتدار حاصل نہ ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn