بیکن ہاؤس کی طرف سے پنجابی زبان پر پابندی کی خبر آئی تو ہر طرف گویا کہرام ہی تو مچ گیا ۔ہر پنجابی بھائی کی طرف سے شدید مذمت کی گئی اور کئی پنجابی سپیکنگ بھائیوں نے تو بیکن ہاؤس کا بائیکاٹ کرنے کی تجویز بھی پیش کر ڈالی۔ مجھ سمیت کسی بھی شخص کو مادری زبان بولنے یا بولے جانے پر اعتراض کرنا ہی سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ہر شخص کی مادری زبان محترم اور مقدس ہے۔ چونکہ پنجاب کی الگ تاریخ، زبان،ثقافت ہے اور پنجاب بذاتِ خود ایک صوبہ ہے اس کے باوجود بھی صرف ایک ادارے کی طرف سے پنجابی بولنے پر اعتراض کا ردِ عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پنجابی زبان پر پابندی مجھے بھی اچھی نہیں لگی کیونکہ مادری زبان چھیننے کا حق ریاست سمیت کسی بھی شخص یا ادارے کو نہیں ہے۔ لیکن جب بات آتی ہے سرائیکی وسیب، تحریک، ثقافت اور صوبے کی اور ان سب کے حصول کی جدوجہد کرنے والی سرائیکی پارٹیز کی تو دنیا بھر کے الزامات ان پر تھونپ دیئے جاتے ہیں۔ کوئی را کا ایجنٹ کہتا ہے تو کوئی این جی اوز کی فنڈنگ پر پلنے کا طعنہ مارتا ہے۔ اور حیران کن بات ہے کہ را کے ایجنٹ اور این جی اوز کی فنڈنگ کا الزام لگانے والے وہ لوگ ہیں جو آج تک سرائیکی قوم کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں اور سابق بنتِ سرائیکستان کو آج کل سرائیکی تحریک سے لسانیت کی بو آنے لگی ہے اور را سے فنڈنگ بھی دکھنے لگی ہے۔ میں صرف چند سوال سابق بنتِ سرائیکستان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے سرائیکی پارٹی کیوں چھوڑی؟ اب تک آپ سرائیکی پارٹی چلاتی رہی ہیں اب تک آپ کو کتنی فنڈنگ را،خاد یا موساد سے ہوئی؟ کیا اب آپ کو را سے فنڈنگ ملنا بند ہوگئی ہے اس لیئے آپ نے سرائیکی پارٹی چھوڑ دی ہے؟ کیا اب آپ تخت لہور کی ایجنٹ بن گئی ہیں؟ کچھ عرصہ پہلے آپ جو سرائیکی وسیب کے مسائل بیان کیا کرتی تھیں وہ حل ہو چکے ہیں؟ آپ کے پرسنل سیکرٹری بلوچ صاحب ہیں جنہوں نے لفظ سرائیکستان پر اعتراض بھی فرمایا ان سے اتنی گزارش ہے کہ حضور کبھی لفظ بلوچستان پر بھی اعتراض ضرور کیجیئے۔ کیونکہ جس طرح آپ کو لفظ سرائیکستان سے لسانیت کی بو آتی ہے کیا لفظ بلوچستان آتے ہوئے جناب کی سونگھنے کی حس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے؟ خدارا قوم کو گمراہ مت کریں۔ دنیا کی بہترین انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی ہے کیا اس ادارے کو سرائیکی پارٹیز کو ملنے والی را سے فنڈنگ کا پتہ نہیں چلا؟ کیونکہ اگر را سے فنڈنگ ہوتی تو یہ قومی تحفظ کا قابلِ اعتماد ادارہ کبھی بھی ملکی سالمیت کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا را سے فنڈنگ تو دور کی بات ہے۔ اور کبھی سرائیکی پارٹیز کے دفاتر یا سیکرٹریٹ غور سے دیکھ لیجئے گا کیا غیر ممالک کی فنڈنگ پر چلنے والی تحریکوں اور اداروں کی یہ حالت ہوتی ہے؟ عمرانی ماہرین سے رجوع کر لیجئے اور تسلی کر لیجئے کہ سرائیکی اور پنجابی نہ تو ایک زبان ہے نہ ثقافت اور نہ ہی تاریخ پھر کیوں آزادی ٹرین پر سندھی، پختون، بلوچی، کشمیری اور پنجابی کلچر تو منتخب کیا گیا لیکن صرف نفرت اور حقارت کی بنیاد بنا کر سرائیکی ثقافت اور تاریخ کو جان بوجھ کر نہ صرف چھپا یاگیا بلکہ سرائیکی اور پنجابی ثقافت کو مکس کر کے پیش کیا گیا جو سراسر خلاف واقعہ اور حقیقت سے روگردانی ہے۔ آئین پاکستان کاآرٹیکل 28 زبان رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کی اجازت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ آرٹیکل 251 کے تابع شہریوں کے کسی طبقہ کو، جس کی الگ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اسے برقرار رکھنے اور فروغ دینے اور قانون کے تابع اس غرض کے لئے ادارے قائم کرنے کا حق ہوگا۔ جب آئین ہمیں اپنی زبان ثقافت اور تاریخ کو برقرار رکھنے کا تحفظ دیتا ہے تو کسی کو کوئی حق نہیں کہ الزام تراشی کی آڑ میں اپنے آقاؤں کو خوش کرے بالکل اسی طرح آئین پاکستان الگ صوبوں کے قیام کی بھی اجازت دیتا ہے آخر میں چند باتیں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سرائیکی پارٹیز علیحدہ ملک نہیں بلکہ اسی پاکستان کے وفاق کے اندر رہ کر الگ صوبے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ لہذا غداری اور پاکستان کو تقسیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کسی کے پاس را، خاد یا موساد اور بشمول کسی بھی ایجنسی یا غیر ملکی ادارے سے سرائیکی تحریک میں موجود لوگوں کو فنڈنگ کے ثبوت ہیں تو قوم پر احسان کیجئے وہ تمام ثبوت قومی سیکیورٹی اداروں کو دیجیئے تاکہ ان غداروں کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جا سکے اور وطن عزیز کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کا خیال بھی زائل ہو جائے۔ اور اگر ان لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں تو خدا کیلئے پرامن سرائیکی تحریک کو بدنام نہ کیجیئے۔ اور اگر بغیر ثبوت دوبارہ ایسے سنگین الزامات سرائیکی وسیب کے محب وطن لوگوں پر لگائے گئے تو ہم کورٹ سے رجوع کریں گے تاکہ ان امن کے دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔ یہاں ایک اور احسن قدم جو حکومت سندھ کی طرف سے اٹھایا گیا وہ قابل تعریف ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دینے کی منظوری دی گئی ہے جو ہر شخص کو مادری زبان کی اہمیت اور اور ثقافت کے تحفظ کیلئے بہت ضروری ہے بالکل اسی طرح باقی صوبوں میں بھی بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے تاکہ ماں بولی کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ اور خدارا ہمیں اپنی دھرتی پر چلنے کا ہنر سیکھائیے کیونکہ سنگ مرمر پر چلتے رہے تو ہم پھسل کر گر جائیں گے بالکل کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق، پاکستان پائندہ باد
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn